1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں مسیحی آسان ہدف، تبصرہ

25 جون 2020

ترکی میں موجود دنیا کی قدیم ترین مسیحی آبادیوں میں شمار کی جانے والی اقلیتی برادری انقرہ حکومت کی جانب سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ الیگزانڈر گوئرلاخ کا لکھا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/3eJxN
تصویر: Euskal Fondoa/Andoni Lubaki

ترکی میں مسیحیوں کا استحصال جاری ہے۔ ایک ایسے وقت پر جب دنیا کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے میں مصروف ہے اور عالمی کساد بازاری اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے مسئلے سے لڑ رہی ہے، ایسے میں ترک حکومت موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقلیتوں پر دباؤ میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے لیے اقلیتوں کے ساتھ تفریق و امتیاز کوئی نیا معاملہ نہیں۔ ایردوآن ایک طویل عرصے سے سیکولر ترکی کو سلطنتِ عثمانیہ اور 'اسلامی‘ نظریات کے ملغوبے میں ڈھالتے جا رہے ہیں۔

حال ہی میں ترکی کے جنوب مشرق میں واقع 'سیریئک آرامیئک‘ مسیحیوں کو ان کے جائیداد سے متعلق حق کے بارے میں خوف میں مبتلا کر دیا گیا۔ یہ مذہبی برادری دنیا کی قدیم ترین مسیحی آبادیوں میں سے ایک ہے۔

آرامیئک زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غالباً یسوع مسیح یہی زبان بولتے تھے۔

منظم تفریق

ترک حکام نے آرامیئک برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ملکیت زمین کو دیگر افراد کے نام الاٹ کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

اس سے قبل کردوں اور ترک فورسز کے درمیان مسلح تصادم کے دوران ترکی کے مشرقی حصوں میں کئی قدیمی چرچ تباہ بھی ہو گئے تھے۔

شام کے شمالی حصوں میں حالیہ ترک عسکری مداخلت کی وجہ سے تقریباﹰ دو لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور ان میں زیادہ تعداد مسیحیوں کی تھی۔ یہ افراد اب تک اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ پائے۔

صدر ایردوآن عوامی سطح پر تو وعدے کرتے رہے ہیں کہ وہ تباہ ہونے والے گرجاگھروں کو دوبارہ تعمیر کرائیں گے، لیکن ترکی میں ایک طویل عرصے سے اقلیتوں کے خلاف جاری منظم تفریق کے تناظر میں مقامی مسیحی آبادی سمجھتی ہے کہ ایردوآن ان وعدوں کی تکمیل یا مسیحیوں کی زندگی دوبارہ معمول پر لانے کے معاملےمیں سنجیدہ نہیں ہیں۔

Portrait Prof. Dr. Dr. Alexander Görlach
الیگزانڈر گوئرلاخ نیو یارک میں رہتے ہیںتصویر: Harvard University/D. Elmes

عقیدے پر عمل کا جرم

جنوب مشرقی ترک علاقے مردین سے تعلق رکھنے والے سیریئک آرتھوڈوکس پادری سیفیر بیلیکن کی مثال سامنے ہے۔ جنوری میں ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ ایک دہشت گرد گروہ کے رکن ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے گرجاگھر کا دروازہ کھٹکھٹانے والے کرد جنگجوؤں کو پانی پلایا تھا۔ اپنے دفاع میں اس پادری کا کہنا ہے کہ اپنے عقیدے کی وجہ سے وہ مجبور ہیں کہ جب کوئی ان سے مدد مانگے، تو وہ مدد کریں۔ ان کے بقول یہ بہ طور مسیحی ان کی ذمہ داری ہے۔ مختلف تنظیموں کی جانب سے مسلسل دباؤ کے بعد انہیں رہا تو کر دیا گیا، تاہم ان پر مقدمہ ابھی چل رہا ہے۔

عوامی تنقید سے بچنے کا آسان راستہ

ترک صدر ایردوآن کی جانب سے دھیرے دھیرے مگر مسلسل استعمال کیے جانے والے مذہبی اور قوم پرستانہ بیانیے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسیحی اب کسی بھی معاملے سے عوامی توجہ ہٹانے کے لیے ایک آسان ہدف بن چکے ہیں۔ ایردوآن نے شام اور لیبیا کے معاملات میں غلط اندازہ لگایا اور اب عوامی تنقید سے بچنے کے لیے پھر مسیحی برادری کو استعمال کر ر ہے ہیں۔ سیفیر بیلیکن کے خلاف مقدمے جیسے واقعات بتاتے ہیں کہ صدیوں سے اس زمین پر بسنے والے مسیحیوں کے لیے اب اپنی ہی زمین پر رہنا کتنا غیریقینی ہو چکا ہے۔

نوٹ: تبصرہ نگاہ الیگزانڈر گوئرلاخ کارنیگی کونسل برائے اخلاقیات، بین الاقوامی امور کے ایک سینیئر فیلو اور کیمبرج یونیورسٹی کے ادار ہ برائے مطالعہ مذاہب و بین الاقوامی امور سے ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر وابستہ ہیں۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی، نیشنل تائیوان یونیورسٹی اور سٹی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے لیے متعدد محققانہ اور مشاورتی عہدوں پر بھی کام کر چکے ہیں ۔گوئرلاخ مذاہب اور لسانیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں