1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی، مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال

6 نومبر 2016

ترکی میں آزادی صحافت کی خاطر نکالی جانے والی ایک ریلی میں شامل مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس کے شیل برسائے ہیں جبکہ ساتھ ہی تیز دھار پانی کا استعمال بھی کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2SELn
Türkei Istanbul Demonstration von Kurden von Polizei aufgelöst
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Bozoglu

ترک شہر استنبول میں تقریبا ایک ہزار افراد نے آزادی صحافت کے لیے منعقدہ ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی۔ یہ مظاہرہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا، جب ترک حکام نے روزنامہ ’جمہوریت‘ کے نو اہلکاروں کے خلاف باقاعدہ طور پر قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ترک صدر کے سیاسی مخالف فتح اللہ گولن کے حامی ہیں، جو ترک حکومت کے مطابق جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے ماسٹر مائنڈ تھے۔

’جمہوریت‘ کے ایڈیٹر انچیف اپنے نو اراکین کے ساتھ باضابطہ طور پر گرفتار
مزید دس ہزار سے زائد ترک ملازمین نوکریوں سے برخاست
’ہم ہار نہیں مانیں گے‘، مدیراعلیٰ کی گرفتاری کے بعد بھی ’جمہوریت‘ پرعزم

ہفتے کے دن جب ان مظاہرین نے روزنامہ ’جمہوریت‘ کے دفتر کے قریب جانے کی کوشش کی تو سکیورٹی فورسز نے طاقت کا بے جا استعمال کیا۔ خبر رساں اداروں نے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس کے شیل برسائے اور تیز دھار پانی کا استعمال کیا تا کہ مظاہرین کو منشتر یا جا سکے۔

کئی ناقدین نے کہا ہے کہ ترک حکومت ناکام فوجی بغاوت کے بعد نہ صرف فتح اللہ گولن کے مبینہ حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ کرد نواز سیاسی جماعت ’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘ HDP کے خلاف بھی کارروائی شروع کیے ہوئے ہے۔ حکومت ان کارروائیوں کو انسداد دہشت گردی کا عمل  قرار دیتی ہے۔

ترک استغاثہ کا کہنا ہے کہ ’جمہوریت‘ کے اسٹاف پر شک ہے کہ وہ نہ صرف امریکا میں مقیم گولن کی حمایت کر رہا ہے بلکہ وہ کرد جنگجوؤں سے بھی ہمدردی رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت ترکی میں صرف ایک اخبار ہی رہ گیا ہے، جو ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتا ہے۔

ترک میں صحافیوں اور میڈیا اداروں کے خلاف انقرہ حکومت کے اس کریک ڈاؤن پر عالمی برادری نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ترک صدر کا کہنا ہے کہ یہ کریک ڈاؤن دراصل ملک دشمن عناصر کے خلاف کیا جا رہا ہے، جن سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔

Paris Kurden Demonstration gegen Erdogan
ترک شہر استنبول میں تقریبا ایک ہزار افراد نے آزادی صحافت کے لیے منعقدہ ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/Francois Mori
Türkei Istanbul Demonstration von Kurden von Polizei aufgelöst
اس مظاہرے میں خواتین بھی شریک ہوئیںتصویر: picture-alliance/dpa/T. Bozoglu
Türkei Kurden demonstrieren in Istambul
مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز نے طاقت کا استعمال بھی کیاتصویر: picture-alliance/dpa/S. Suna

ترکی میں اس حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں جولائی سے اب تک تقریباً 170 میڈیا ادارے بند کیے جا چکے ہیں جبکہ سو سے زائد صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ اس کارروائی میں جج، اساتذہ، پولیس اہلکار، سرکاری افسران، فوجی اہلکار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ دس ہزار سے زائد افراد کو گرفتار یا ان کی ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔

ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن حکومت پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے اور اپوزیشن کو دبانے کے لیے ’ناجائز اقدامات‘ بھی کر رہے ہیں۔