1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی سے چھ سو افغان تارکين وطن کی ملک بدری

7 اپریل 2018

سياسی پناہ کے ليے يورپ پہنچنے کے خواہاں تقريباً چھ سو افغان مہاجرين کو ترکی ميں پکڑے جانے کے بعد ہفتے اور اتوار کے درميان ملک بدر کيا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم اداروں نے انقرہ حکومت کے اس اقدام پر تنقيد کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2veJq
Demonstration Köln gegen Abschiebung nach Afghanistan Menschenrechte
تصویر: DW/R.Shirmohammadil

ترک حکام غير قانونی طور پر ترکی پہنچنے والے تقريباً چھ سو افغان تارکين وطن کو اسی ہفتے کے اختتام پر ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں۔ اس بارے ميں خبر دارالحکومت انقرہ سے وزارت داخلہ کی جانب سے ہفتہ سات اپريل کو جاری کی گئی۔ وزارت کے بيان کے مطابق يہ افغان مہاجرين اپنے وطن میں ’جاری دہشت گردانہ کارروائيوں اور اقتصادی مسائل کے سبب‘ ايران کے راستے ترکی ميں داخل ہوئے۔ سکيورٹی دستوں نے انہيں پکڑ کر صوبائی اميگريشن حکام کے حوالے کر ديا۔

اطلاعات ہيں کہ ترکی کے مشرقی صوبے ارزرم ميں 591 غير قانونی تارکين وطن کی ملک بدری کے لیے دستاويزی کارروائی مکمل کر لی گئی ہے۔ ان مہاجرين کی ملک بدری کے ليے خصوصی پروازيں ہفتے اور اتوار کے روز مشرقی ترکی سے افغان دارالحکومت کی جانب روانہ ہوں گی۔ وزارت داخلہ نے اپنے بيان ميں يہ بھی کہا ہے کہ ديگر صوبوں ميں موجود غير قانونی تارکين وطن کی ملک بدريوں کے لیے کاغذی کارروائی مکمل کر ليے جانے کے بعد ان کی وطن واپسی کے عمل ميں تيزی آئے گی۔

انسانی حقوق سے منسلک اداروں اور غير سرکاری تنظيموں نے جنگ اور تشدد زدہ علاقوں کی جانب پناہ گزينوں کی ملک بدری کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔ اداروں کے مطابق اس عمل سے ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

يہ امر بھی اہم ہے کہ ايک معروف ترک اخبار نے اسی ہفتے اس بارے ميں خبر شائع کی تھی کہ چند ہزار افعان تارکين وطن غير قانونی طور پر ترکی ميں داخل ہو چکے ہيں اور وہ کئی دنوں تک پيدل سفر کر کے صوبہ ارزرم پہنچے ہيں۔ افغانستان ميں سال رواں کے دوران طالبان اور ديگر دہشت گرد تنظيموں کے دہشت گردانہ حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ع س / ش ح، نيوز ايجنسياں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید