1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک پارلیمان میں اوباما کی تقریر اور دنیائے اسلام

شہاب احمد صدیقی7 اپریل 2009

امريکی صدر اوباما نے پیر کے روز ترکی ميں پارليمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے امريکہ، بقيہ مغربی دنيا اور دنيائے اسلام کے تعلقات بارے ميں اپنے خيالات کا اظہار کيا۔

https://p.dw.com/p/HRXa
امریکی صدر ترک پارلیمان سے خطاب کے دورانتصویر: AP

ترکی کا دورہ کرنے والے امریکی صدر اوبا ما نے ترک پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’ مجھے بالکل صاف طور سے یہ کہنے دیجئے کہ امریکہ اسلام کے ساتھ جنگ نہیں کر رہا ہے اور وہ کبھی بھی ایسا نہیں کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا کے ساتھ ہماری رفاقت بہت ضروری ہے، نہ صرف ان تشدد پسند نظریات کی روک تھام کے لئے جن کو تمام عقیدوں کے ماننے والے رد کرتے ہیں بالکل ہم سب کے لئے مواقع میں اضافے کے لئے بھی۔ میں یہ بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ امریکہ کا مسلم برادری اور مسلم دنیا کے ساتھ تعلق صرف دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے موقف کی بنیاد پر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہو گا۔ ہم ایک دوسرے کے مفادات اور احترام کی بنیاد پر ایک وسیع اشتراک عمل کے خواہشمند ہیں۔ ہم مذہب اسلام کے لئے اپنے گہرے جذبہ تحسین کا اظہار کریں گے۔ جس نے صدیوں تک دنیا کی تشکیل کی ہے اور اس میں میرا ملک بھی شامل ہے۔‘‘

Türkei USA Präsident Barack Obama bei Abdullah Gül in Ankara
مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران امریکی اور ترک صدورتصویر: AP

امریکی صدر نے کہا کہ امریکی مسلمان امریکہ کے لئے ایک سرمایہ ہیں۔ بہت سے امریکیوں کے خاندانوں میں مسلمان ہیں یا وہ مسلم اکثریت والے ملکوں میں رہ چکے ہیں۔ جیسے کہ وہ خود بھی۔ انہوں نے ترکی کے بارے میں کہا:’’ یہ مشرق اور مغرب کے تقسیم ہونے کی جگہ نہیں بلکہ ان کے ملاپ کی جگہ ہے۔ میں یہاں آپ کے ساتھ کھڑے ہونے کو اپنے لئے باعث عزت سمجھتا ہوں۔ ہمیں مستقبل کے لئے مشترکہ طور پر کوشش کرنا ہوگی اور ہماری مضبوط اور پائیدار دوستی کے لئے امریکہ کے عزم کو دہرانا ہو گا۔‘‘

باراک اوباما نے مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے بارے میں کہا کہ امریکہ دوریاستی حل یعنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی پرزور حمایت کرتا ہے اور اس کی بھی کہ یہ دونوں ریاستیں امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔ یہی فلسطینیوں، اسرائیلیوں اور دنیا بھر کے نیک نیت لوگوں کا ہدف ہے۔

Obama Go Home auf Türkisch
اتوار کو استنبول شہر کے نقسیم چوک پر اوباما کے دورے کی مخالفت کرنے والے مظاہرینتصویر: AP

Annapolis کے روڈ میپ میں تمام فریقین نے اس پر اتفاق کیا تھا۔ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کو اپنے وعدے پورے کرنے چاہیں۔ صدر اوباما نے مذید کہا کہ ہمیں دہشت گردی کو مسترد کرنا اور یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اسرائیل کےسلامتی کے تقاضے جائز ہیں۔ امریکی صدر نے ترک پالیمان سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے بارے میں کہا کہ اگر ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ ترک کر دے تو اس سے اس علاقے میں امن میں اضافہ ہو گا۔ باراک اوباما نے کہا کہ وہ ایرانی عوام اور رہنماؤں پر یہ واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ باہمی احترام اور باہمی مفاد کی بنیاد پر ایران کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے۔ اب یہ ایرانی رہنماؤں کو انتخاب کرنا ہے کہ وہ ایٹمی اسلحہ تیار کرنا چاہتے ہین یا اپنے عوام کا مستقبل بہتر بنانے کے خواہشمند ہیں۔

امریکی صدر نے قبرص کے بارے میں کہا کہ امریکہ ایک منصفانہ اور پائیدار حل کے لئے ہر طرح کی مدد دینے کے لئے تیار ہے جس کے نتیجے میں قبرص ایک دوزون اور دو برادریوں والی فیڈریشن میں تبدیل ہو سکے۔

ترکی قیام کے دوران امریکی صدر اوباما نے ترک صدر عبداُللہ گُل کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ دوسری جانب اُن کی آمد سے قبل، اتوار کو استنبول شہر کے معروف تقسیم چوک میں اوبامہ مخالف مظاہرہ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اوباما، اتوار کی شب ترکی پہنچے تھے۔