1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک مبلغ گولن کی تحریک کا نیا مرکز ’جرمنی‘

14 جولائی 2018

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد مذہبی مبلغ فتح اللہ گولن کی تحریک کو دنیا بھر میں شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن جرمنی میں یہ تحریک ابھی تک فعال ہے۔ گونر کوہنے کی رپورٹ۔

https://p.dw.com/p/31RkH
Türkei 1. Jahrestag des Putschversuches
تصویر: DW/D. Cupolo

ترک حکومت پندرہ جولائی 2016ء کو ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کا الزام فتح اللہ گولن کی ’حزمت‘ نامی تحریک پر عائد کرتی ہے۔ ترک زبان میں ’حزمت‘ خدمت کو کہتے ہیں۔ ترک حکام کے مطابق ایسے کئی شواہد موجود  ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی اس کوشش کے پیچھے گولن تحریک تھی تاہم انقرہ حکومت ابھی تک اس تناظر میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ترکی کے سرکاری اداروں میں گولن تحریک کے حامی بڑی تعداد میں موجود تھے اور ابھی تک ہیں۔ تاہم ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایک لاکھ دس ہزار سے زائد افراد کو اسی شک کی بنیاد پر ملازمتوں سے فارغ کیا گیا، چالیس ہزار کے لگ بھگ گرفتار ہوئے اور ہزارہا کو معطل کیا گیا۔

اس واقعے کے بعد گولن تحریک سے ہمدردی رکھنے والے ہزاروں افراد کو ملک چھوڑنا پڑ گیا۔ اس کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں قائم گولن تحریک کے 800 سے زائد تعلیمی اداروں میں سے زیادہ تر کو بند کر دیا گیا۔ اسی طرح تربیتی مراکز بھی بند کر دیے گئے اور اساتذہ کو مختلف ممالک سے نکال دیا گیا۔

Buchcover - Was ich denke, was ich glaube von Fethullah Gülen
تصویر: Herder Verlag

ڈوئچے ویلے کے اپنے ذرائع کے مطابق جرمنی کی سیاست، ذرائع ابلاغ اور بڑے بڑےکلیساؤں میں بھی گولن تحریک سے ہمدردی پائی جاتی ہے۔ اس تحریک کے حامیوں کو رجب طیب ایردوآن کی پالیسیوں کے متاثرین کے طور دیکھا جاتا ہے۔

ترک حکام کو شک ہے کہ دو سال پہلے کی ناکام فوجی بغاوت کے ذمہ دار متعدد افراد جرمنی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ جون کے وسط میں ایک ترک اخبار نے برلن میں ایک گھر کا پتہ شائع کیا، جس میں اس بغاوت کا مبینہ منصوبہ ساز ’عادل اوکسوز‘ کے چھپے ہونے کی تصدیق کی گئی تھی۔ اس دوران انقرہ حکام  جرمنی سے عادل کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

جرمن حکومت کے مطابق اسے علم نہیں کہ عادل اوکسوز واقعی اس گھر میں رہتا ہے۔ تاہم ڈوئچے ویلے نے جب اس عمارت کے ایک رہائشی سے اس بارے میں دریافت کیا، تو اس نے کہا کہ اس نے عادل اوکسوز کی طرح دکھائی دینے والے ایک شخص کو اس مکان میں دیکھا تھا۔

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد جرمنی میں بھی گولن تحریک کے تعاون میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس تحریک کے زیر انتظام چلنے والے تیس میں سے تین اسکول بند ہو چکے ہیں، کیونکہ بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو ان اسکولوں سے نکال لیا تھا۔ اس طرح گولن تحریک کے تحت چلنے والے بہت سے ٹیوشن سینٹرز بھی بند ہو گئے تھے۔ تاہم اب صورتحال میں بہتری آ رہی ہے۔