1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک بغاوت کے مبینہ منصوبہ سازوں کو جرمنی نے پناہ دے دی

افسر اعوان روئٹرز
2 فروری 2018

جرمن حکومت نے ترک فوج کے چار سابق اہلکاروں کو سیاسی پناہ دے دی ہے۔ اس فیصلے کے بعد خدشہ ہے کہ انقرہ اور برلن کے تعلقات میں نئی کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ ترکی ان اہلکاروں کو ناکام فوجی بغاوت کا منصوبہ ساز قرار دیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2s2qd
Symbolbild Flagge Verhältnis Türkei Deutschland
تصویر: Imago/Ralph Peters

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق برلن حکومت کی طرف سے ترک فوج کے جن چار سابق اہلکاروں کو سیاسی پناہ دی گئی ہے، ان میں وہ سابق کرنل بھی شامل ہے، جس کے بارے میں انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ اُس نے جولائی 2016ء میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

جرمن جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس فیصلے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں نئی کشیدگی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ سیاسی پناہ دیے جانے کے سبب ان ترک شہریوں کو اب ان پر لگے الزامات کے تحت قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے واپس ترکی کے حوالے نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ پیش رفت انقرہ حکومت کی خفگی کا باعث بن سکتی ہے۔

Türkei Ankara Armeehauptquartier Putschversuch Militär
ترکی میں جولائی 2016ء میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے انقرہ اور یورپی ممالک کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ تصویر: Getty Images/E. Ortac

ترکی کا الزام ہے کہ سابق کرنل الہام نے جو اُس وقت انقرہ کی ملٹری اکیڈمی کا سربراہ تھا، ناکام فوجی بغاوت میں رنگ لیڈر کا کردار ادا کیا تھا۔ روئٹرز کے مطابق اس رپورٹ پر تبصرے کے لیے جرمنی کی وزارت خارجہ سے فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔

ترکی میں جولائی 2016ء میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے انقرہ اور یورپی ممالک کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ترک حکومت کی طرف سے اس بغاوت سے مبینہ تعلق کے شبے میں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ملازمین اور فوجیوں کا حراست میں لیا جانا یا انہیں ان کی ملازمتوں سے برطرف کیا جانا بھی ہے۔

Türkei - Festnahmen nach Militärputsch
بغاوت سے مبینہ تعلق کے شبے میں ترکی میں ہزاروں سرکاری ملازمین اور فوجیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے یا انہیں ان کی ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

اس کے علاوہ ترکی میں بڑی تعداد میں جرمن شہریوں کو بھی حراست میں لیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر کو بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے ساتھ رابطوں کے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا تاہم برلن حکومت اس کی وجہ سیاسی مقاصد کو قرار دیتی ہے۔

علاوہ ازیں آج جمعہ دو فروری کو ہی یونان کی ایک عدالت نے بھی ایک ایسے ترک شہری کو انقرہ حکومت کے حوالے نہ کرنے کا فیصلہ سنا دیا، جس پر الزام ہے کہ وہ ترکی میں ہونے والے خودکش حملوں کی منصوبہ سازی میں شریک تھا۔ یونانی عدالت کے مطابق ترکی کے حوالے کیے جانے سے اس شخص کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔