1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: شدت پسند ہندوؤں نے راہباؤں کو ٹرین سے اتار دیا

جاوید اختر، نئی دہلی
25 مارچ 2021

بھارتی ریاست اتر پردیش میں تبدیلی مذہب کے شبہ میں شدت پسند ہندوؤں نے راہباؤں کو ٹرین سے اتار دیا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت قصورواروں کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔

https://p.dw.com/p/3r5zF
Neu Delhi Proteste von Christen
تصویر: Reuters/A. Mukherjee

حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی اسٹوڈنٹ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے کارکنوں نے دو راہباؤں اور ان ساتھ سفر کرنے والی دو طالبات کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے انہیں ٹرین سے محض اس بنیاد پر اتروا دیا گیا کیونکہ انہیں شبہ تھا کہ ان طالبات کو تبدیلی مذہب کے لیے لے جایا جا رہا ہے۔

کیرالا، جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں،کے وزیر اعلی پنارائی وجیئن نے بھی اس واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ 'سب کا ساتھ، سب کا وکاس(ترقی)‘ کے نعرے پر ووٹ مانگنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ اتر پردیش میں ان کی پارٹی کی حکومت قصورواروں کے خلاف قانونی کارروائی کر ے گی۔

وزیر اعظم سے کارروائی کامطالبہ

مسیحیوں کی متعدد تنظیموں نے راہباؤں کے ساتھ بدسلوکی کے اس واقعہ پر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ تبدیلی مذہب کے نام پر مسیحیوں اور بالخصوص راہباؤں کو نشانہ بنانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔

آل انڈیا کیتھولک یونین کے ترجمان جان دیال نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ بنگال میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور ان راہباؤں کا تعلق مغربی بنگال سے ہے اس لیے وزیر داخلہ نے فوراً ایک بیان دے دیا۔

Neu Delhi Proteste von Christen
تصویر: Reuters/A. Mukherjee

سب خاموش ہیں

 انہوں نے مزید کہا،”یہ واقعہ اتر پردیش میں پیش آیا لیکن وہاں کے وزیر اعلی اب تک خاموش ہیں۔ یہ معاملہ چلتی ہوئی ٹرین میں پیش آیا لیکن ریلوے کے وزیر نے اب تک کوئی بیان دینا ضروری نہیں سمجھا ہے۔نہ ہی پارلیمنٹ میں اب تک حکومت نے کوئی بیان دیا ہے اور نہ ہی کسی کو معطل کیا گیا ہے۔"

کیتھولک یونین کے رہنما نے کہا کہ حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس طرح کے واقعات دنیا بھر میں بھارت کے لیے بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔

بی جے پی کے حربے

 جان دیال کا کہنا تھا، ”دراصل بی جے پی حکومت سماجی،مذہبی اور فلاحی تنظیموں پر دباؤ ڈالنے کے مختلف حربے اپنا رہی ہے۔ پولیس کے ذریعے ان کے خلاف جھوٹی رپورٹیں درج کرا رہی ہے۔ انہیں دھمکی دے رہی ہے اور دوسری طرف سنگھ پریوار کے لوگوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ جو جی میں آئے کریں۔ انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔"

جان دیال نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو اقلیتوں کو باضابطہ یقین دہانی کرانی چاہیے کہ جھانسی میں راہباؤں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے آئندہ اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آئے گا۔

Indien Protest Christen gegen Anschläge auf Kirchen 05.02.2015
تصویر: picture-alliance/AP/M. Swarup

کیا تھا واقعہ؟

دو راہبائیں اور ان کے ساتھ دو طالبات مشرقی ریاست اوڈیشہ جانے کے لیے 19مارچ کو نئی دہلی میں ایک ٹرین پر سوار ہوئیں۔ لیکن اترپردیش کے جھانسی میں اے بی وی پی کے اراکین نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی اور الزام لگایا کہ یہ راہبائیں لڑکیوں کو تبدیلی مذہب کے لیے لے جارہی ہیں۔ انہوں نے ریلوے پولیس کی مدد سے ان چاروں خواتین کو ٹرین سے اتار دیا۔ ٹرین سے اتارنے کے بعد انہیں تھانے میں گھنٹوں بٹھائے رکھا گیا اور خاتون پولیس کی عدم موجودگی میں ہی پوچھ گچھ کی گئی۔شکایت غلط پائے جانے کے بعد ہی انہیں دوسری ٹرین سے جانے کے اجازت دی گئی۔

اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کیرالا میں بائیں بازو کی حکومت کے وزیر اعلی نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ راہبائیں اور طالبات دہلی میں منعقدہ ایک اجلاس میں شرکت کے لیے گئی تھیں اور ان کے پاس تمام شاختی دستاویزات بھی موجود تھے لیکن اس کے باوجود صرف مذہب کی بنیاد پر ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ انہوں نے امیت شاہ کے نام بھیجے خط میں کہا ہے کہ اے بی وی پی کے تقریباً ڈیڑھ سو ورکر وہاں جمع ہو گئے تھے جنہوں نے اور جھانسی کی ریلوے پولیس نے ان خاتون مسافروں کے ساتھ بدسلوکی کی۔

 کیرالا میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور ہندو قوم پرست جماعت اس جنوبی ریاست میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔

Indien Protest Christen gegen Anschläge auf Kirchen 05.02.2015
تصویر: S. Hussain/AFP/Getty Images

تبدیلی مذہب کا الزام غلط

اتر پردیش کے ایک اعلی افسر نے کہا کہ اے بی وی پی کے الزامات کی جانچ کی گئی تھی، جس میں تبدیلی مذہب جیسی کوئی بات نہیں پائی گئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس واقعے کی تفصیلی رپورٹ طلب کی گئی ہے جس کے بعد آگے کی کارروائی کی جائے گی اور اگر کوئی قصوروار پایا گیا تو اس کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی۔

مسیحی برادری کی تنظیم کیتھولک بشپ کانفرنس کے ترجمان فادر جیکب جی پلاکاپلّی کا کہنا تھا کہ چھٹیوں کے دنوں میں یا مسیحیوں کے تہواروں کے دنوں میں جب راہبائیں اور طالبات سفر کرتی ہیں تو اس طرح کے واقعات اکثر ہوتے ہیں،”ہمیں لگتا ہے کہ مرکزی حکومت کو مسیحی برادری کی عزت کا کوئی خیال نہیں ہے۔"

فادر جیکب کا مزید کہنا تھا،”میں اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب وہ اپنے بھگوا رنگ کے لباس میں پورے ملک میں گھوم سکتے ہیں تو دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہبی لباس پہن کر سفر کیوں نہیں کر سکتے؟‘‘

دریں اثنا اے بی وی پی کے ترجمان راہول چودھری نے ایک بیان میں کہا کہ ان کارکنوں نے تنظیم کی ہدایت پر یہ کام نہیں کیا بلکہ''یہ ان کا ذاتی فعل تھا اور انہو ں نے صورت حال کے لحاظ سے جو بہتر سمجھا ویسا کام کیا۔"

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں