1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تاریخ کے دفاع میں

23 اکتوبر 2021

سائنس اور ٹیکنالوجی ميں ترقی کے ساتھ تاریخ کے علم پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا اس کی افادیت باقی ہے یا ختم ہو چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/425dt
Mubarak Ali
تصویر: privat

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مورخوں کا یہ استدلال ہے کہ تاریخ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک جگہ ٹھہری ہوئی نہیں رہی بلکہ مسلسل بدلتی رہی ہے۔ عہد وسطیٰ میں تاریخ کے علم کی اس ليے ضرورت تھی کہ یہ خدا کے منصوبوں کو آشکارہ کرتی ہے۔ لیکن جب اٹھارھویں صدی میں روشن خیالی کا دور آیا، تو تاریخ کے عمل کو عقلیت اور دلیل کی روشنی میں دیکھا جانے لگا۔ روشن خیال کے اس نقطہ نظر کو رومانوی مورخوں نے چیلنج کیا اور عہد وسطیٰ کو پرامن اور خوشگوار دور کی حیثیت سے پیش کیا۔ صنعتی انقلاب کے بعد ورکنگ کلاس کی تاریخ ابھری۔ اس کے بعد سے تاریخ نویسی میں کئی نظریاتی اسلوب آئے، جن میں خاص طور سے عورتوں کی تاریخ شامل ہے۔

Richard J. Evans نے اپنی کتاب 'تاریخ کے دفاع میں‘ یعنی In Defence of History میں تاریخ کو کئی پہلوؤں سے دیکھا ہے۔ اس کے مطابق تاریخ کی بنیاد ماضی کے واقعات پر ہوتی ہے۔ لیکن واقعات خود سے نہیں بولتے ہیں بلکہ مورخ ان کو زبان دیتا ہے اور پھر ان کی تشریح کرتا ہے۔ اس ليے واقعات کو کئی طرح سے بیان کیا جاتا ہے۔ بعض مورخ اپنی تھيوریز کو صحیح ثابت کرنے کے ليے اپنی پسند کے واقعات چن لیتے ہیں اور جو ان کی راہ میں رکاوٹ ہوں، انہيں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ Duteh ہٹورین Pieter Geyl (d.196) نے Toynbee پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس نے اپنی تھیوری کو صحیح ثابت کرنے کے ليے پسند کے واقعات کا انتخاب کیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ نئے ماخذوں کی دریافت کے ساتھ واقعات کی تعداد بھی بڑھتی رہتی ہے۔ بعض اوقات متضاد واقعات ہوتے ہیں۔ یہ مورخ کا کام ہے کہ وہ ان کا ناقدانہ جائزہ لے۔

ریناسانس کا دوسرا رخ

امریکی تاریخ کی بنیادیں

تاریخی دستاویزات کی بربادی اور کلچر کی تباہی

تاریخ کا دوسرا اہم پہلو ماضی کی تشکیل ہوتا ہے۔ یہ تشکیل واقعات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ کچھ مورخ ماضی کی تشکیل حال کی روشنی میں کرتے ہیں۔ لیکن کچھ ماضی کو اسی کے عہد تک محدود رکھتے ہیں۔ ماضی کا سیاسی اور سماجی استعمال بھی ہوتا ہے۔ خاص طور سے سیاست دان ماضی کی شان و شوکت کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کرتے ہیں، جیسے میسولینی نے اپنی آمرانہ حکومت کو جائز قرار دینے کے ليے سلطنت روما کی شان و شوکت کا احیاء کیا۔ یہاں موجودہ دور میں بھارت میں ہندوتوا کے ماننے والے قدیم ہندوستان کی تہذیب کو مبالغے کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ مسلمان بھی اپنے ماضی کے بندھنوں کے اسیر ہیں اور بار بار اس کو واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس کے برعکس وہ قومیں جو ترقی کر رہی ہیں ان کے ليے ماضی کی اہمیت تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ وہ حال سے نکل کر مستقبل کی طرف دیکھتی ہیں۔

Richard J. Evans نے تاریخ کے بیانیے میں اس تبدیلی کا بھی ذکر کیا ہے جو امریکی اور فرانسیسی انقلابات کے بعد قومی ریاست کی بنیاد کے طور پر ابھری تھی۔ اس نے قوم پرستی کو بھی ابھارا اور سیکولر خیالات کو بھی۔ اب تاریخ نویسی میں وطن کی اہمیت ہو گئی۔ وطن کی عظمت کو ماضی میں بھی تلاش کیا گیا اور حال میں بھی اس میں ماضی سے ہیروز کو ڈھونڈ کر لایا گیا اور یہ ثابت کیا گیا کہ ہیرو کی شخصیت کی وجہ سے تاریخی عمل آگے بڑھا ہے۔ لیکن قوم پرستی کی تاریخ نے قوموں کے درمیان ہم آہنگی کے بجائے تضادات کو پیدا کیا اور بعض اوقات یہ تضادات جنگ کی صورت میں نکلے۔ مثلاً پہلی جنگ عظیم میں تقریباً تمام یورپی ممالک اور ان کے عوام جنگ کے حامی تھے۔ قوم پرستی نے انہیں اس قدر جذباتی کر دیا تھا کہ وہ جنگ کی تباہی اور خونریزی کا اندازہ نہ لگا سکے۔

تاریخ کی ایک اور اہم شکل سوشل ہسٹری ہے۔ اب تک یہ حکمران طبقوں تک محدود تھی لیکن اب آہستہ آہستہ اس میں عوام کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اگرچہ اب تک روایتی مورخ اس پر بضد تھے کہ تاریخ کو حکمران طبقوں اور ان طاقت کے ذریعے سے ہی آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ چونکہ نچلے طبقوں کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوتی اس ليے تاریخ میں ان کا کوئی کردار بھی نہیں ہے۔ یہی صورت حال عورتوں کی ہے جو تاریخی عمل سے خارج ہیں۔ لیکن مورخوں نے اس سے انحراف کرتے ہوئے عوامی تاریخ کی طرف توجہ دی John Richard Green (d.1883) نے اپنی کتاب A short History of the English Poople میں عوامی کردار کو تاریخ میں شامل کیا ہے۔ اس کے بعد سے عوامی تاریخ میں وسعت آتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ E.P.Thompson نے Making of Englsih Working Class لکھ کر نچلی سطح کی تاریخ کو اہم بنا دیا۔ اس کتاب سے متاثر ہو کر لاطینی امریکا کے مورخوں نے اپنے اپنے ملکوں کی Working Class لکھنی شروع کی۔ اسی کے نتیجے میں Labour History کی ابتداء ہوئی جو موجودہ دور میں تاریخ کا ایک اہم حصہ ہو گئی ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد جب اٹلی، جرمنی اور اسپین میں فاشسٹ حکومتیں آئیں تو انہوں نے تاریخ کو مسخ کر کے اسے اپنے سیاسی مقاصد کے ليے استعمال کیا۔ جرمنی میں نازی حکومت نے آریا نسل کی برتری کو ثابت کر کے دوسری نسلوں کو کم تر قرار دیا اور آریا نسل کی پاکیزگی کے ليے یہودیوں کو اس سے خارج کر دیا۔ میسولینی نے سلطنت روما کی تقلید کرتے ہوئے لیبیا اور ایتھوپیا پر حملہ کیا۔ ایتھوپیا میں تو اس کو شکست ہوئی لیکن لیبیا کو اس نے اپنی کالونی بنا لیا۔ Franco نے اسپین میں کمیونسٹوں کا قتل عام کر کے اپنی حکومت قائم کئی۔

یہاں تاریخ نویسی میں امیپریل ازم کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ جب یورپی طاقتوں نے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں پر قبضہ کیا تو ان کی تاریخ نویسی قوم پرستی سے نکل کر سامراجی ہو گئی اور اس میں ان کی کالونیز کی تاریخ بھی شامل ہو گئی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد Post Modernism کی تحریک ابھری۔ اس کے پیروکاروں کی دلیل یہ تھی کہ تاریخ کو ایک متحرک علم کی صورت میں دیکھنا چاہيے اور مورخ نے جو کچھ لکھ دیا ہے اب اس پر اس کی اجارہ داری ختم ہو گئی۔ اب یہ قاری کا کام ہے کہ وہ متن سے اپنے معنی خود نکالے۔ اس ليے ایک ہی متن میں کئی مفہوم ہو سکتے ہیں۔ اس کی تشریح کا کام قاری کے ذمہ ہے۔ مورخ کے ليے یہ بھی ضروری نہیں کہ موضوعی (Objective) تاریخ لکھے۔ قاری کو خود ہی یہ فیصلہ کرنا چاہيے کہ وہ تاریخ سے کیا سیکھتا ہے۔ Karl Popper اور اس کے حامیوں کے نزدیک تاریخ کا علم بے معنی ہے۔ کیونکہ اس کے کوئی اصول یا ضوابط نہیں ہیں۔ اس ليے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والے حالات کا جائزہ لے سکیں۔ تاریخ سائنس کی طرح تجریاتی بھی نہیں ہے۔ اس ليے اس کا مطالعہ سوسائٹی کے فائدہ مند نہیں۔

Richard J. Evans اس کے برعکس اپنا تجربہ بیان کرتا ہے کہ جب اس نے 1792ء میں جرمنی کے شہر ہيمبرگ میں ہیضے کی وباء پر تحقیق کی، اس کے نتائج یہ تھے کہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، نہ گندے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام ہے اور نہ صفائی کا۔ اس وجہ سے بیماریاں اور وبائیں پھیلتی ہیں۔ اس کی تحقیق کے نتیجے میں ہيمبرگ کی انتظامیہ نے شہر کی ان خرابیوں کو دور کر کے لوگوں کی صحت کے ليے اچھا انتظام کیا۔

کیا اس قسم کی تحقیق پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں کو صحت مند ماحول دے سکتی ہے۔ کیونکہ بیماریوں کے علاج کے علاوہ یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ بیماریاں کیوں پیدا ہوتی ہیں۔ جب مشہور انقلابی لیڈر چے گویرا نے ڈاکٹری کا امتحان پاس کر کے پریکٹس شروع کی تو اس کے پاس اس قدر مریض آئے کہ اس کے ليے ان سب کا علاج کرنا مشکل ہو گیا۔ اس ليے اس نے فیصلہ کیا کہ بیماریوں کا خاتمہ دوا سے نہیں بلکہ بیماریاں پیدا کرنے والی وجوہات کا اختتام کر کے ممکن ہے اور اس کے ليے انقلاب لا کر ریاست کے ذریعے بیماریوں کو دور کیا جا سکتا  ہے۔ یہ کام انقلاب کے بعد کیوبا کی ریاست نے کیا جہاں آج بھی صحت کے اعلیٰ معیار قائم ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں بھی تاریخ کی اہمیت باقی ہے اور اس کے ذریعے ہم اپنے مسائل کو سمجھ کر حل کر سکتے ہیں۔