1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخیورپ

تاریخ کا بدلتا بیانیہ اور سچ کی تلاش

7 اکتوبر 2021

تاریخی واقعات کے بارے میں مورخین کی رائے بدلتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے نئی تاریخی دستاویزات سامنے آتی ہیں، ان کی معلومات کی وجہ سے واقعات کی حقیقت بھی بدلتی رہتی ہے۔

https://p.dw.com/p/41O94
Mubarak Ali
تصویر: privat

ایسا بھی ہوتا ہے کہ اکثر مورخ کسی واقعے کی اہمیت بڑھانے کے لئے اس کے بارے میں اس قسم کی رائے دے دیتے ہیں کہ جس کا تاریخ سے تو کوئی واسطہ نہیں ہوتا مگر ان کے بیان کی وجہ سے وہ ایک نئی شکل میں سامنے آجاتا ہے۔ یہاں ہم دو ایک مثالوں سے اپنی بات کی وضاحت کریں گے۔ مثلاً ایڈورڈ گبن، جو ''ڈیکلائن اینڈ فال آف رومن ایمپائر‘‘ کے مصنف ہیں۔ انہوں نے چارلس مارٹل اور عربوں کے درمیان ہونے والی پوئٹر کی جنگ کے بارے میں یہ رائے دی ( 1356ء میں لڑی گئی تھی) کہ اگر اس جنگ میں عرب فتح یاب ہو جاتے تو آج آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں میں قرآن کی تفسیر پڑھائی جا رہی ہوتی۔ ایڈورڈ گبن کا یہ بیان مبالغہ آمیزی پر مبنی ہے۔ اس وقت عرب اندلس پر قابض تھے اور وہاں سے وہ مسیحی ہمسایہ ملکوں پر حملے کرتے تھے۔

 لیکن جنوبی فرانس پر یہ حملہ کوئی فوجی مہم نہیں تھی بلکہ یہ عیسائی سرحدی علاقوں پر لوٹ مار کرنے والے عربوں کے فوجی دستے تھے۔ اس لئے چارلس مارٹل کی فتح کسی بڑے عربی حملے کو شکست دینے سے نہیں ہوئی اور جب عربوں کے دستوں کو جنگ میں شکست ہوئی تو وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

 چارلس مارٹل ان کا تعاقب اس وجہ سے نہیں کر سکا کیونکہ ان کے پاس گھوڑوں کو کنٹرول کرنے کے لئے لگام نہیں تھے جبکہ عربوں کے گھوڑے لگاموں سے کنٹرول ہوتے تھے۔ ایڈورڈ گبن کے اس بیان کی وجہ سے چارلس مارٹل ہیرو ہو گیا کہ جس نے مسلمانوں کے حملے سے مسیحی دنیا کا دفاع کیا۔ لیکن اب نئی تحقیق کے ذریعے مورخ اس حقیقت تک پہنچے ہیں کہ جنوبی فرانس میں اس جنگ سے پہلے ہی مسلمانوں کی آبادی تھی اور ان کا قبرستان آج تک وہاں محفوظ ہے، لہٰذا اس نئی تحقیق نے چارلس مارٹل کے کردار کو گھٹا دیا ہے۔

ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں بھی یورپ کے دانشوروں کی جو رائے تھی، اس کی بنیاد اس پر تھی کہ انہیں ہندوستان کے بارے میں پوری معلومات نہیں تھی۔ اس وجہ سے مشہور جرمن فلسفی یوہان گوٹفریڈ ہیرڈر (d.1803) نے سب سے پہلے یہ بات کہی کہ ہندوستان کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ اسی رائے کو بعد میں ہیگل اور مارکس نے بھی دہرا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انیسویں صدی کے وسط تک ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں اہل یورپ کو بہت کم معلومات تھیں اور وادی سندھ کی تہذیب ابھی دریافت نہیں ہوئی تھی۔

موریہ خاندان کے بادشاہ اشوک کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ قدیم ہندوستان کی تاریخ اور اس کی یادگاریں بھی گمنام تھیں۔ اس وجہ سے معلومات کا ذریعہ عہد وسطیٰ کی وہ تاریخ تھی، جس میں حکمران خاندانوں کی حکومت ہوتی تھی اور یہ خاندان اندرونی جنگوں کی وجہ سے بدلتے بھی رہتے تھے۔ ہندوستان کے فلسفے اور یہاں دانشوروں کے کردار کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں لیکن وقت گزرنے کے بعد جب آثار قدیمہ کی کوششوں سے ہڑپہ اور موہنجوڈارو کے شہر دریافت ہوئے، کوٹلیا کی ارتھ شاستر کا مسودہ ملا، بھگتی تحریک کے دانشوروں کا کردار سامنے آیا اور عہد وسطیٰ میں جو علمی اور ادبی کام ہوا تھا، اس سے اہل یورپ کو واقفیت ہوئی تو نئی تحقیق نے اس رائے کو غلط ثابت کر دیا کہ ہندوستان کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔

اس کے برعکس اب موجودہ زمانے میں ہندوستانی ادب اور فلسفے سے اہل یورپ کے دانشور متاثر ہوئے ہیں اور ہندوستانی تاریخ کے گمشدہ پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی تہذیب برابر بدلتی رہی اور اس نے چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو بھی متاثر کیا۔

اسی طرح سے افریقہ کے بارے میں بھی غلط رائے قائم کر کے اہل یورپ کے دانشوروں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ افریقہ ایک تاریک براعظم ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ نہ تو اس کی کوئی تاریخ ہے اور نہ ہی کوئی کلچر لیکن وقت کے ساتھ اس رائے کو بھی چیلنج کیا گیا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی بنیاد پر ہومو سپین ایتھوپیا میں ارتقاء پذیر ہو کر دنیا کے دوسرے علاقوں میں گئے۔ اس لحاظ سے تمام انسان بنیادی طور پر افریقی ہیں۔ رنگ و نسل کی بنیاد آب و ہوا قبائلوں کی علیحدگی سے پیدا ہوئی لیکن اب آثار قدیمہ کے ماہرین اور مورخوں نے افریقہ کی گمشدہ تاریخ کو دریافت کر کے اسے مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ فرانس کے دانشور فرانسواں وولنے (d.1820) نے اپنی کتاب ''دا روئنز‘‘ میں ایتھوپیا اور شمالی افریقہ کی تہذیب پر روشنی ڈالی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اس تہذیب کا اثر بحیرہ روم کے اردگرد واقع ملکوں پر ہوا۔

 دوسرا مورخ، جس نے افریقہ کی تاریخ پر گہرا مطالعہ کیا ہے وہ مارٹن بیرنل (d.2013) ہیں، جس نے اپنی کتاب ’’بلیک ایتھینا‘‘، جو تین جلدوں میں شائع ہوئی ہے، میں یہ ثابت کیا ہے کہ یونان کی تہذیب افریقہ کی تہذیب سے متاثر ہوئی تھی۔ اس نے دلیل دیتے ہوئے قدیم داستانوں، آثار قدیمہ کی یادگاروں، فوک کہانیوں، گیتوں اور نئی تحقیق کی بنیاد پر یہ ثابت کیا ہے کہ جزیرہ کریٹ کی تہذیب نے مصر سے سیکھا اور اس کا اثر یونان کی کلاسیکل تہذیب پر ہوا۔

 اس حقیقت کو اب تک یورپی مورخ چھپاتے رہے لیکن اب واضح ثبوت ہونے کی وجہ سے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یونان کی تہذیب کو تشکیل دینے میں خاص طور سے مصری تہذیب کا بڑا حصہ ہے۔ جب افریقی ممالک یورپی سامراج سے آزاد ہوئے تو انہوں نے اپنی تاریخ کو مرتب کرنا شروع کیا۔

 اب نہ صرف افریقہ کے ممالک میں بلکہ یورپ اور امریکا کے تعلیمی اداروں میں بھی افریقہ پر تحقیق ہو رہی ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین قدیم تہذیبوں کے نشانات کو سامنے لا رہے ہیں۔ لہٰذا اب افریقہ تاریک نہیں رہا ہے بلکہ اس کی اپنی تاریخ اور اپنی شناخت ہے۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تاریخ کے بارے میں کوئی ایک رائے مستند نہیں ہوتی۔ نئی تحقیق تاریخ کے بیانیے کو بدلتی رہتی ہے اور یہی تاریخ کی خوبصورتی ہے کہ اس کی تشکیل نو برابر ہوتی رہتی ہے۔