1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکینِ وطن کا جرمنی میں فٹ بال کے ذریعے انضمام

صائمہ حیدر
15 نومبر 2016

جرمنی میں گزشتہ برس لاکھوں مہاجرین کی آمد نے جہاں ملک کو مختلف النوع  چیلنجز سے دو چار کیا ہے وہاں فٹ بال کے غیر ملکی کھلاڑیوں کی تعداد میں پہلے کی نسبت چار گنا اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/2SjoR
Symbolbild Sport Fußball Füße und Ball
جرمنی میں چھبیس ہزار سے زائد فٹ بال کلب موجود ہیں جہاں چھ اعشاریہ پانچ ملین کھلاڑی رجسٹرڈ ہیںتصویر: Fotolia/Maxisport

جرمن فٹ بال ایسوسی ایشن ’ ڈی بی ایف ‘ کے مطابق بیالیس ہزار غیر ملکیوں نے جن میں سے بیشتر پناہ گزین ہیں،  گزشتہ ایک برس میں فٹ بال کھیلنے کے لیے لائسنس کی درخواست کی ہے۔

جرمنی میں چھبیس ہزار سے زائد فٹ بال کلب موجود ہیں جہاں چھ اعشاریہ پانچ ملین کھلاڑی رجسٹرڈ ہیں۔ فٹ بال کے میدان میں نئے مہاجر کھلاڑیوں کی آمد کے تناظر میں جرمن فٹ بال ایسو سی ایشن نے ’ایٹ ہوم اِن فٹ بال‘ کے عنوان سے ایک بروشر ڈیزائن کیا ہے تاکہ جرمن فٹ بال کلبوں اور تارکینِ وطن کی یکساں طور پر مدد کی جا سکے۔

 بروشر میں ایک طرف جہاں مہاجرین کو جرمن زبان سیکھنے اور فٹ بال کلب میں خود کو ضم کرنے کے حوالے سے رہنمائی کی گئی ہے وہیں جرمن فٹ بال کلبوں کو بھی ایسی تجاویز پیش کی گئی ہیں جن کے ذریعے ذہنی صدمے سے گزر کر آئے اِن ممکنہ مہاجر کھلاڑیوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔

Fußball Stadion Stade de Bordeaux
جرمنی میں بیشتر مہاجرین کھلاڑی فٹ بال کلب کے رکن بننا چاہتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/C. Blumberg

 پیر مورخہ پندرہ نومبر کو برلن میں ہونے والی انٹیگریشن سمٹ میں جرمن چانسلر میرکل کو پیش کیے جانے والے اِس بروشر کو خاتون فٹ بال کھلاڑی لیرا آلوشی کی پُشت پناہی حاصل ہے۔ اٹھائیس سالہ آلوشی چار برس کی تھیں جب کوسوو سے ہجرت کر کے جرمنی آگئی تھیں۔ آلوشی کا کہنا ہے کہ فٹ بال نے اُنہیں جرمن معاشرے میں ضم ہونے میں بہت مدد فراہم کی۔

آلوشی کا کہنا تھا، ’’ہم جرمنی میں غیر ملکی تھے اور مسترد کر دیے جانے کے خوف سے نبردآزما تھے۔ فٹ بال کے کھیل نے مجھے دوست بنانے میں مدد دی اور نئے سرے سے خود اعتمادی بخشی۔ ‘‘ جرمنی بھر میں تین ہزار کے قریب فٹ بال کلب مرد اور خواتین مہاجرین کو کلبوں میں بھرتی کرنے کی ایک مہم کا آغاز کر رہے ہیں۔

جرمن فٹ بال پر مہاجرین کی آمد سے مرتب ہونے والے اثرات کو نیچے سے اوپر تک ہر سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ فٹ بال کھلاڑی جیسے کہ ہیمبرگ کے اٹھارہ سالہ بیکری جاتا اور وِرڈر بریمن کے انیس سالہ عثمان مانح  نے اس فٹ بال سیزن کے لیے بندس لیگ کے کلبوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔ یہ دونوں گیمبیا سے ہجرت کر کے جرمنی آئے تھے۔