1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن کی ملک بدری کے سخت تر قوانین، جرمن کابینہ متفق

18 اپریل 2019

وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی جرمنی سے ملک بدری یقینی بنانے کے لیے نئے قوانین پر ملکی کابینہ کی حمایت حاصل کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/3H2gv
Abschiebung abgelehnter Asylbewerber
تصویر: picture-alliance/dpa/H.Schmidt

ان نئے اور سخت قوانین کا مقصد ایسے تارکین وطن کی جرمنی سے ملک بدری یقینی بنانا ہے، جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ بدھ سترہ اپریل کی شام وزیر داخلہ نے ’منظم وطن واپسی کا قانون‘ (Geordnete-Rückkehr-Gesetz) وفاقی کابینہ میں پیش کیا اور مخلوط حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزرا نے اس بل کی تائید کر دی۔

اب اس قانونی مسودے کو ملکی پارلیمان میں بحث کے لیے پیش کیا جائے گا تاہم امکان ہے کہ ملک بدری کے حوالے سے یہ نئے اور سخت قوانین موسم گرما کی تعطیلات سے قبل منظور کر لیے جائیں گے۔

دوسری جانب جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے کئی ان قوانین کے حق میں نہیں ہیں۔ نئے ضوابط میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ تارکین وطن کو ملک بدری سے قبل خصوصی حراستی مراکز میں رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں عام جیلوں میں بھی قید رکھا جا سکے گا۔

نئے مجوزہ قانون کے اہم نکات

  • قریب ایک ہزار عام جیلوں میں ’ملک بدری سے قبل خصوصی حراستی مراکز‘ قائم کیے جائیں گے۔ تاہم کئی صوبوں کے مطابق اس فیصلے سے مہاجرین کو جرائم پیشہ افراد کے ساتھ نہ رکھنے کے اصول کی نفی ہوتی ہے۔

  • سیاسی پناہ کے مسترد ایسے درخواست گزار جو اپنی شناخت اور آبائی وطن کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں، انہیں چودہ دن کے لیے حراست میں لے کر اس دوران انہیں قائل کیا جائے گا کہ وہ اپنے ملک کے سفارت خانے سے سفری دستاویزات حاصل کریں۔

  • جرمنی میں پناہ کے متلاشیوں کے لیے ایک نئی کیٹیگری ’بغیر شناخت والے افراد جنہیں قیام کی عارضی اجازت ہے‘ بنائی جائے گی۔ اس درجے میں موجود تارکین وطن پر ملازمت کے حصول پر پابندی عائد کی جا سکے گی اور وہ اپنی مرضی کی رہائش گاہ میں بھی نہیں رہ پائیں گے۔

  • پہلے ہی یورپی یونین کے کسی دوسرے رکن ملک میں پناہ حاصل کرنے والے افراد کو فراہم کی جانے والی سماجی امداد میں کٹوتی کی جائے گی۔

  • ایسے سرکاری ملازمین جو تارکین وطن کو ان کی ملک بدری کے بارے میں پیشگی خبردار کر دیتے ہیں، اُن کے خلاف بھی مقدمہ چلایا جا سکے گا۔

  • سن 2015، 2016 اور 2017 میں جرمنی میں پناہ حاصل کرنے والے غیر ملکیوں کی حیثیت پر نظرثانی تین تا پانچ برس کے عرصے کے دوران کی جائے گی۔

جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق اس برس فروری کے آخر تک ملک بھر میں دو لاکھ چالیس ہزار افراد ایسے تھے جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک لاکھ چوراسی ہزار افراد کو ان کی شناخت واضح نہ ہونے یا بیمار ہونے کے باعث جرمنی میں قیام کی عارضی اجازت، جسے ڈُلڈنگ‘ کہا جاتا ہے، دی گئی تھی۔

ش ح / ع ح