جرمنی سے کن لوگوں کو ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے؟
17 جولائی 2018گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دو ایسے واقعات رونما ہوئے جن کے بعد سے جرمنی سے تارکین وطن کی ملک بدری ایک بار پھر میڈیا میں اہم موضوع بن گیا ہے۔ پہلا واقعہ تو جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی انہترویں سالگرہ کے دن اتنی ہی تعداد میں افغان مہاجرین کی ملک بدری تھی جن میں سے ایک تارک وطن نے ملک واپس پہنچنے پر خود کشی کر لی تھی۔ دوسرا واقعہ دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے مبینہ باڈی گارڈ سمیع اے کو ملک بدر نہ کرنے کے عدالتی حکم کے باوجود اس کا تیونس ڈی پورٹ کیا جانا تھا۔
جرمنی سے کن لوگوں کو ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے؟
غیر ملکیوں کو جرمنی میں رہنے کے لیے رہائشی اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے افراد کو بھی ایک عارضی رہائشی پرمٹ جاری کیا جاتا ہے۔ اگر کسی مہاجر کی پناہ کی درخواست مسترد ہو جائے تو اس کا جرمنی میں رہنے کا اجازت نامی منسوخ ہو جاتا ہے اور اسے یہاں سے چھ ماہ کے اندر اندر واپس اپنے ملک جانا ہوتا ہے۔ ڈی پورٹ کیے جانے کی حتمی تاریخ گزرنے کے بعد ایسے افراد کو زبردستی بھی ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے۔
ایسے افراد جن کا جرمنی میں رہائش کا پرمٹ ختم ہو گیا ہو اور حکام کی جانب سے اس میں توسیع بھی نہ کی گئی ہو، انہیں بھی جرمنی بدر کیا جا سکتا ہے۔ یہی اصول ایسے افراد پر بھی لاگو ہوتا ہے جنہوں نے سنجیدہ نوعیت کے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہو۔ ایسا کوئی بھی شخص جس نے تین سال جیل میں گزارے ہوں، اسے ڈی پورٹ کیا جاتا ہے تاہم ایسے تارکین وطن کی بابت جنہیں معمولی نوعیت کے جرائم میں سزا دی گئی ہو یا پھر وہ سلامتی کے لیے خطرہ ہوں، اسے ڈی پورٹ کیا جائے یا نہیں، یہ ابھی تک ایک سوال ہے۔
کون ملک بدر ہو گا؟ یہ فیصلہ کون کرتا ہے
جرمنی سے غیر ملکیوں اور مہاجرین کو ڈی پورٹ کیے جانے کی ذمہ داری دو محکمے مل کر نبھاتے ہیں۔ ایک تو ’آؤس لینڈر بے ہؤرڈے‘ یعنی غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کا محکمہ اور دوسرا بامف یعنی مہاجرین اور ترک وطن کے معاملات دیکھنے کے لیے بنایا گیا جرمن وفاقی ادارہ۔
زیادہ تر صورتوں میں مہاجرین کی ملک بدری کے احکامات جاری کرنے اور پھر انہیں نافذ کرنے کی ذمہ داری ’آؤس لینڈر بے ہؤرڈے‘ ہی نبھاتا ہے لیکن کسی تارک وطن کی پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد بامف بھی ایسے احکامات جاری کرنے کا مجاز ہے۔
ڈی پورٹیشن کے راستے میں مشکلات کیا ہیں؟
عملی طور پر دیکھا جائے تو ملک بدری کے وقت اگر ڈی پورٹ ہونے والے افراد اتنی شدت سے مزاحمت کریں کہ جہاز کی سلامتی متاثر ہونے کا خدشہ ہو تو پھر جرمن پولیس یہ ملک بدری روک سکتی ہے۔ یہ ملک بدریاں عام طور سے کمرشل پروازوں کے ذریعے کی جاتی ہیں اور جہاز کے پائلٹ کو دوران پرواز سلامتی کا خطرہ محسوس ہو تو وہ بھی فلائٹ اڑانے سے انکار کا حق رکھتا ہے۔
ڈی پورٹیشن کی راہ میں چند قانونی رکاوٹیں بھی موجود ہیں۔ بے ریاست یا پھر ایسے افراد جن کی قومیت کا تعین نہ کیا جا سکے، خصوصی کیس بن جاتے ہیں، کیونکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق ملکوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایسے لوگوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیں جو ان کے شہری نہیں۔
انسانی بنیادوں پر بھی بعض اوقات ملک بدری روک دی جاتی ہے۔ اگر یہ خطرہ ہو کہ اپنے وطن واپس جانے پر اُس فرد کو زبان، نسل، مذہب یا قومیت کی بنیاد پر ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑے گا تو جرمن قانون کے مطابق ایسے فرد کو ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔ سمیع اے کے معاملے میں اسی قانون کو لاگو کیا جانا تھا۔