1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بے نظیر بھٹو کا قتل، 13 سال بیت گئے

27 دسمبر 2020

پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی 13ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔ انہیں 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد ایک خودکش حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/3nG98
Benazir Bhutto - pakistanische Premierministerin 1996
تصویر: picture-alliance/dpa/T. röstlund

بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ وہ سابق صدر پرویز مشرف کے دَور حکومت میں طویل جلاوطنی کے بعد 2007ء میں وطن لوٹی تھیں۔ دبئی سے کراچی پہنچنے پر ہزاروں افراد ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پہنچے۔ وہ ایئرپورٹ سے اپنی رہائش گاہ کو لوٹ رہی تھیں کہ راستے میں ان کے قافلے کو خودکش بمباروں نے نشانہ بنایا۔ اُس حملے میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ بے نظیر بھٹو محفوظ رہی تھیں۔

وہ 2008ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنے وطن لوٹی تھیں۔ اسی حوالے سے 27 دسمبر 2007ء کو انہوں نے روالپنڈی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔ ان کی گاڑی جلسہ گاہ سے نکل رہی تھی کہ ایک خود کش دھماکا ہوا۔ اس حملے میں بے نظیر بھٹو ہلاک ہو گئیں۔

Premierministerin Pakistan Benazir Bhutto mit US-Präsident Bill Clinton
بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza

ان کی ہلاکت پر ملک بھر، بالخصوص صوبہ سندھ میں بد امنی پھیل گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے ایک ٹریبیونل نے بھی بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کی تحقیقات کی تھیں۔

بےنظیر بھٹو نے دنیا کی دو مشہور یونیورسٹیوں ہاورڈ اور آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی۔ وہ 1976 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے طلبہ کی یونین کی صدر منتخب ہوئیں اور ایسی پہلی ایشیائی طالبہ تھیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔

’وہ مر کر بھی زندہ ہے‘

سانحہ کارساز کو گیارہ سال بیت گئے

’’ہمیں بی بی کا وعدہ پورا کرنا ہے، ہمیں پاکستان بچانا ہے‘‘

سترکی دہائی میں جب پاکستان میں ابھی ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت تھی، تو بے نظیر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس وطن لوٹیں۔ اُس کے کچھ ہی عرصے بعد جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگادیا اور ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت ختم کردی گئی۔ بے نظیر اور چند دیگر اہل خانہ کو پہلے نظربند اوربعد میں باقاعدہ گرفتارکر لیا گیا۔

مارشل لاء کے دوران سیاسی آزادی کی جدوجہد ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح تب ایک لڑکی نے تن تنہا ایک پورے نظام سے ٹکر لینے کی کوشش کی۔ مارشل لاء کی وجہ سے اُن کے بہت سے رفقاء ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ لیکن اس صورتحال میں بھی پیپلز پارٹی کے نوجوان کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اپنی اس نوجوان رہنما کے ساتھ رہی اوریوں اُس دور میں پاکستان کی نوجوان نسل کو ایک نیا وژن ملا۔

بے نظير بھٹو کی دسويں برسی

بے نظیر بھٹو نے اپنی جوانی کے دور میں بہت سے مسائل کا سامنا بھی کیا جیسے گرفتاری کے دوران ان کو اپنے والد سے ملاقات کی اجازت نہ ملنا، نظر بندی، قتل کی دھمکیاں اورقید وبند کی صعوبیتیں۔ جن حالات کا بے نظیر کو سامنا رہا اس کی وجہ سے ان کے مخالفین کو بھی ان کی بہادری کا قائل ہونا پڑا۔ اس دور میں پیپلز پارٹی کے نوجوان کارکنوں کی سیاسی تربیت کے ساتھ ساتھ بے نظیر نے اُن کی سماجی تربیت بھی جاری رکھی۔

بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد ان کی جماعت کی قیادت ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو سونپ دی گئی تھی جبکہ پاکستان کے سابق صدر آصف زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین مقرر کیے گئے تھے۔

ا ب ا / ش ح