1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھوک کا شکار یمنی اور امداد چوری

31 دسمبر 2018

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ یمن میں بھوک اور افلاس کے شکار افراد تک پہنچائی جانے والی بین الاقوامی امداد چوری کر لی جاتی ہے یا چھین لی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Aoga
Yemen Sanaa - Menschenmengen bei Essensausgabe
تصویر: Reuters/K. Abdullah

نبیل الحکمی شہر تعز میں انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل سے متعلق امور کے افسر ہیں۔ تعز یمن کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ یمن میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری خانہ جنگی کے تناظر میں وہاں اربوں ڈالر کی بین الاقوامی امداد کی ترسیل جاری ہے، تاہم اب بھی لاکھوں افراد قحط سالی کا شکار  ہیں۔

جنگ سے متاثر یمن کو اب خُناق کی وبا کا سامنا

گزشتہ ایک صدی کے دوران دنیا کے سب سے ہلاکت خیز قحط

نبیل الحکیمی کے مطابق رواں برس موسم بہار اور موسم گرما میں یمن پہنچنے والی امداد میں سے خوراک کی بہت سی بوریاں غائب تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ تعز شہر کے گردونواح کے لیے دی جانے والی امداد میں سے چاولوں کی پانچ سو بوریوں کا کوئی ریکارڈ نہ ملا، جب کہ خوراک کے سات سو سے زائد باسکٹ ایک امدادی ادارے کی ذخیرہ گاہ سے لوٹ لیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ شہر کے شمالی حصے میں اجناس کی 110 بوریاں امدادی ٹرکوں سے چھینی گئیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یمن میں بھوک کے مارے لوگوں کے لیے دی جانے والی امداد چھینی جا رہی ہے۔۔

اے پی نے مختلف دستاویزات اور الحکیمی سمیت دیگر امدادی کارکنان کے انٹرویوز کے تناظر میں کہا ہے کہ تعز میں ایسے ہزاروں خاندان، جنہیں امداد مہیا کی جانا تھی، اب بھی اس امداد کے منتظر ہیں کیوں کہ بہت سے مواقع پر مسلح افراد امدادی سامان لوٹ لیتے ہیں، جن میں زیادہ تر واقعات میں سعودی قیادت میں عرب اتحاد کے حمایت یافتہ جنگجو گروہ ملوث ہوتے ہیں۔

الحکیمی نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے کہا، ’’فوج کو اس امداد کو چھین لیے جانے سے بچانا چاہیے۔‘‘

یمن کے شہری بھوک کا شکار

اے پی کے مطابق مسلح گروپ، جن کا تعلق یمنی تنازعے کے دونوں فریقین سے ہے، کئی مقامات پر امدادی سامان کی ترسیل میں خلل ڈالتے ہیں، جب کہ لوٹا گیا امدادی سامان یا تو اپنے حامی گروہوں کو بھاری معاوضے کے عوض بیچا جاتا ہے یا بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے یہ رپورٹ یمن میں خفیہ دستاویزات، پبلک ریکارڈ اور 70 سے زائد امدادی کارکنوں، حکومتی عہدیداروں اور یمن کے چھ صوبوں میں مقیم عام شہریوں سے انٹرویوز کی بنیاد پر مرتب کی ہے۔

ع ت، ک م (اے پی)