1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی کسانوں کے احتجاج کے دوران تشدد، آٹھ افراد ہلاک

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
4 اکتوبر 2021

ایک مرکزی وزیر کے بیٹے نے مبینہ طور پر مظاہرین پر گاڑی چڑھا دی، جس کے نتیجے میں چار کسانوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے۔ پولیس نے ملزمان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے اور علاقے میں زبردست کشیدگی پائی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/41E53
Indien | Bauern führen den Protest
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images

ریاست اتر پردیش کے ضلع لکھیم پور کی پولیس کا کہنا ہے کہ کسان رہنماؤں کی شکایت پر داخلہ امور کے وزیر مملکت اجے کمار مشرا کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے تاہم اس کے ساتھ ہی وہاں فساد کرنے والے بعض نامعلوم افراد کے خلا ف بھی مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

لکھیم پور میں کسانوں کے مظاہرے میں تشدد کے واقعات کے بعد علاقے میں حالات بہت کشیدہ ہیں جہاں حکام نے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی ہیں۔ گزشتہ رات سے ہی سینیئر حکام سمیت حکومت نے وہاں بڑی تعداد میں پولیس فورس بھی تعینات کر رکھی ہے۔

اس دوران حکومت نے متاثرہ علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر نے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہےکہ تا حکم ثانی  علاقے میں کسی بھی طرح کے اجتماع کی اجازت نہیں ہے۔ حکومت نے حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں کی وہاں آمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔

معاملہ ہے کیا؟

اتوار تین اکتوبر کی شام لکھیم پور کھیری میں تین گاڑیوں پر مشتمل ایک قافلے نے وہاں احتجاجی مظاہرہ کرنے والے کسانوں پر مبینہ طور پر اپنی گاڑیاں چڑھا دی تھیں۔ اس واقعے میں چار کسان مظاہرین سمیت آٹھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد علاقے میں پرتشدد واقعات شروع ہو گئے اور کئی گاڑیوں کو نذر آتش بھی کر دیا گیا۔

کسانوں کا یہ مظاہرہ تکونیا نامے علاقے میں ہو رہا تھا۔ شام کے وقت جب ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریا اور مرکزی وزیر اجے کمار مشرا ادھر سے گزرے تو بطور احتجاج کسانوں نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور تب ہی پرتشدد واقعات شروع ہو گئے تھے۔

بھارت میں کسانوں کی مختلف تنظیمیں مودی حکومت کے متعارف کردہ بعض زرعی قوانین کی گزشتہ تقریباﹰ ایک سال سے مخالفت کر رہی ہیں اور اس دوران ملک کے مختلف علاقوں میں ان کے دھرنے بھی جاری ہیں۔ اس واقعے سے قبل بھی کسان مظاہرین کو دبانے کے لیے حکومت کئی بار سخت اقدامات کر چکی ہے۔

Indien | Bauern führen den Protest | Tiranga-Marsch
تصویر: Sunil Ghosh/Hindustan Times/imago images

کسانوں کا مطالبہ

کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز گاڑیوں کے جس قافلے نے مظاہرین کو ٹکر ماری، اس میں شامل ایک گاڑی مرکزی وزیر کے بیٹے اشیش مشرا چلا رہے تھے۔ ان کا الزام ہے کہ حکمراں جماعت بی جے پی نے دانستہ طور پر مظاہرین کو نشانہ بنایا اور اس واقعے کے بعد مرکزی وزیر کو فوری طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

کسان تنظیموں کے اتحاد ’سمیوکت کسان مورچہ‘ نے چار مرنے والے کسانوں کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے میں مظاہرین میں سے 20 سالہ لوپریت سنگھ، 35 سالہ دل جیت سنگھ، 60 سالہ نچھتر سنگھ اور  19 سالہ گوروندر سنگھ ہلاک ہوئے۔

تاہم مرکزی وزیر اجے مشرا کا کہنا ہے کہ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا، اس وقت ان کے بیٹے اشیش مشرا وہاں موجود ہی نہیں تھے۔ اجے مشرا کے مطابق اس واقعے میں کسان مظاہرین کے علاوہ ہلاک ہونے والے دیگر افراد کا تعلق بھی بی جے پی کے کارکنوں سے ہے۔

انہوں نے بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا، ’’میرا بیٹا موقع پر موجود ہی نہیں تھا۔ وہاں شر پسند عناصر تھے، جنہوں نے کارکنوں پر لاٹھیوں اور تلواروں سے حملہ کیا۔ اگر میرا بیٹا وہاں ہوتا، تو وہ زندہ باہر نہیں آ سکتا تھا۔‘‘

اپوزیشن رہنما حراست میں

کسان مظاہرین کے خلاف اس تشدد کے بعد حزب اختلاف کے تقریباﹰ سبھی رہنماؤں نے مرکز میں اور ریاست میں بی جے پی کی حکومتوں پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اس واقعے کو ’غیر انسانی بربریت‘ سے تعبیر کیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے ریاستی وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

کانگریس پارٹی کی رہنما پریانکا گاندھی، ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھیلیش یادو اور بعض دیگر ریاستی رہنما کل رات سے ہی متاثرہ علاقے میں پہنچنے کی کوشش کرتے رہے تاہم ان سب کو حراست میں لے لیا گیا اور اب تک کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

ریاستی حکومت نے لکھنؤ ایئر پورٹ پر حکام کو ہدایت کی ہے کہ تا حکم ثانی چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ اور پنجاب کے نائب وزیر اعلیٰ کے طیاروں کو لکھنؤ میں اترنے کی اجازت نہ دی جائے۔ کانگریس رہنما نوجوت سنگھ سدھو کو بھی چندی گڑھ میں حراست میں لے لیا گیا، جو ان ہلاکتوں کے خلاف مظاہرے کے لیے نکلے تھے۔

پریانکا گاندھی نے اپنی حراست سے متعلق ایک بیان میں کہا، ’’مجھے حراست میں رکھا گیا ہے جبکہ وزیر کے جس بیٹے کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، وہ ابھی تک آزاد ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں حراست میں لینے کے لیے کوئی وارنٹ نہیں دکھایا، ’’تو میں تو اسے اغوا ہی کہوں گی۔‘‘

Indien | Proteste gegen Landwirtschaftsgesetze in Sonipat
تصویر: Anushree Fadnavi/REUTERS

اس دوران ان کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، جس میں انہیں ایک کمرے میں جھاڑو لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہی وہ کمرہ ہے، جس میں انہیں قید کیا گیا ہے اور چونکہ وہ وہاں گندگی تھی، اس لیے بیٹھنے کے لیے وہ خود وہاں جھاڑو لگانے پر مجبور ہو گئیں۔

سابق وزیر اعلیٰ اکھیلیش یادو کو لکھنؤ میں ان کی رہائش گاہ پر نظر بند کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’کسانوں کے ساتھ جس قدر ظلم اور زیادتی بی جے پی کی حکومت کر رہی ہے، اتنا ظلم تو برطانوی راج نے بھی ہندوستانیوں پر نہیں کیا تھا۔‘‘

کسانوں کے خدشات

مودی حکومت نے گزشتہ برس متنازعہ زرعی قوانین کو منظور کیا تھا اور اس عمل کے فوری بعد ان قوانین کے خلاف کسان تنظیموں نے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے تھے۔ اب یہ مظاہرے ایک تحریک میں بدل چکے ہیں۔ گزشتہ نومبر سے دارالحکومت دہلی کے مضافات میں ہزاروں کسانوں کا دھرنا جاری ہے۔

 اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت اور کسانوں کے درمیان اب تک بات چیت کے گیارہ ادوار ہو چکے ہیں تاہم ان کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا۔ حکومت نے ان قوانین میں ترامیم کا وعدہ کیا ہے، لیکن کسان تنظیمیں ان قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

 کسانوں کو خدشہ ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے انہیں اناج کی فروخت کے عوض مناسب دام نہیں ملیں گے اور مقامی منڈیوں پر نجی تاجروں اور بڑے کارپوریٹ اداروں کا قبضہ ہو جائے گا۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات ضروری تھیں اور ان سے کسانوں کو فائدہ ہی ہو گا۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک پرامن ہے اور جب تک حکومت کسانوں کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی، وہ اس وقت تک دہلی کی ریاستی سرحد سے نہیں اٹھیں گے اور ان کا دھرنا جاری رہے گا۔

کسانوں کے احتجاج ميں عورتيں بھی پيش پيش

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں