1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی نوجوانوں میں خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان

22 جون 2012

ایک نئی تحقیق کے مطابق بھارتی نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بات اس وجہ سے بھی انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ ان نواجونوں کی حیثیت تیزی سے ترقی کرتی ہوئی بھارتی معیشت کے انجن کی سی ہے۔

https://p.dw.com/p/15JgF
تصویر: Fotolia/Kwest

اس وقت بھارتی نوجوانوں میں موت کا دوسرا سب سے بڑا سبب خود کشی ہے۔ یہ بات ایک نئی تحقیق کے ریسرچ میگزین Lancet میں شائع ہونے والے نتائج سے ثابت ہوئی ہے۔ اس ریسرچ کے لیے ماہرین کی ٹیم کی قیادت وکرم پاٹل نے کی، جو لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن میں طبی نفسیات کے پروفیسر ہیں۔

وکرم پاٹل نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس نئی تحقیق کے مطابق بھارت میں پڑھے لکھے اور  امیر نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے اپنی ریسرچ کے نتائج کی روشنی میں کہا کہ بھارت میں پندرہ سے لے کر انتیس برس تک کی  عمر کی کافی زیادہ لڑکیاں اس لیے موت کا شکار ہو جاتی ہیں کہ انہیں زچگی کے دوران کئی طرح کی طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Bombenanschlag in Indien
اس وقت بھارتی نوجوانوں میں موت کا دوسرا سب سے بڑا سبب خود کشی ہےتصویر: AP

اس ریسرچ سے متعلق ’لینسیٹ‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیائی ملک بھارت میں خود کشیوں کا جو رجحان پھیل رہا ہے، اس میں سب سے تیز رفتاری سے اضافہ جنوبی بھارتی علاقوں میں ہو رہا ہے۔ ان علاقوں میں پڑھے لکھے اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں اپنی جان لے لینے کا رجحان پریشان کن ہے۔ ایسے نوجوانوں کی عمریں زیادہ تر پندرہ اور تیس برس کے درمیان بتائی جاتی ہیں

وکرم پاٹل کے مطابق قابل غور بات یہ ہے کہ سن2010 میں پندرہ سے تیس سال تک کی عمر کے جن بھارتی نوجوانوں نے خود کشی کی، ان کی تعداد اِسی عمر کے سال بھر میں ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والے بھارتی نوجوانوں کی تعداد سے بس تھوڑی سی ہی کم تھی۔

Indien Kinderhochzeit
بھارت میں پندرہ سے لے کر انتیس برس تک کی عمر کی کافی زیادہ لڑکیاں اس لیے موت کا شکار ہو جاتی ہیں کہ انہیں زچگی کے دوران کئی طرح کی طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہےتصویر: AP

طبی اور نفسیاتی ماہرین کے لیے یہ امر بھی بے چینی کا سبب ہے کہ مغربی ملکوں میں خود کشی کرنے والے شہریوں میں سے زیادہ تر بزرگ افراد، غریب شہری یا کم تعلیم یافتہ باشندے ہوتے ہیں۔ لیکن بھارت میں یہ سب کچھ الٹ ہے، خود کشی کرنے والے امیر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے گھرانوں کے نوجوان ہوتے ہیں۔

وکرم پاٹل کے مطابق خود کشی کے اس رجحان میں اضافے کے اسباب کو سمجھنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسری وجہ نظر نہیں آتی کہ نوجوانوں میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات بدلتے ہوئے سماجی حالات کے ایسے شہریوں پر ممکنہ منفی اثرات کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔

Schlaftabletten mit Wasserglas Symbolbild
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال قریب نو لاکھ انسان خودکشی کر لیتے ہیںتصویر: DW

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال قریب نو لاکھ انسان خودکشی کر لیتے ہیں۔ یہ اوسط ہر ایک لاکھ انسانوں میں سے تیرہ افراد بنتی ہے۔ سن 2010 میں پوری دنیا میں جتنے بھی انسانوں نے خود کشی کی، ان میں بھارتی شہریوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار کے قریب رہی تھی۔ یہ تعداد دو ہزار دس میں عالمی سطح پر دوسری سب سے بڑی تعداد تھی۔

اسی سال خود کشی کے واقعات میں چین پوری دنیا میں پہلے نمبر پر رہا تھا جہاں ہر سال تقریباﹰ دو لاکھ انسان خود کشی کر لیتے ہیں۔ چین اور بھارت میں خود کشی کے یہ واقعات اپنی تعداد میں سب سے زیادہ ہیں۔ چین کی آبادی 1.3 بلین اور بھارت کی آبادی 1.2 بلین ہے۔ مجموعی طور پر ان ملکوں کی کل آبادی 2.5 بلین بنتی ہے، جو اس وقت سات بلین کی عالمی آبادی کے ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے۔

وکرم پاٹل کے بقول بھارتی خواتین میں خود کشی کی شرح زیادہ فی کس آمدنی والے مغربی ملکوں میں خواتین میں خود کشی کی شرح کا تین گنا بنتی ہے۔ خود کشی کرنے والی بھارتی خواتین میں اکثریت بیواؤں، طلاق یافتہ خواتین یا اپنے شوہروں سے علیحدہ رہنے والی خواتین کی ہوتی ہے۔

ij / mm / AFP