1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے اعتراض کے باوجود کشمیر میں چین کا پاور پلانٹ

3 جون 2020

چین نے بھارتی اعتراضات کے باوجود پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ہزار سے زیادہ میگاواٹ کے ایک نئے پاور پلانٹ کے منصوبے پر اتفاق کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3dBYu
Arif Alvi besucht China
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Zhai Jianlan

یہ پاور پلانٹ چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت دریائے جھیلم کے قریب تعمیر کیا جائے گا۔ 

یہ نئی پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب مشرقی لداخ اور سکّم میں سرحد پر بھارتی اور چینی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ چین نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ہزار 124 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت والے ہائیڈرو پاور پلانٹ بنانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق پاکستان میں توانائی کے وزیر عمر ایوب نے اس نئے منصوبے سے متعلق کہا ہے کہ کوہلا ہائیڈرو پاور پلانٹ کے منصوبے پر چینی کمپنی 'تھری گارجیز کارپوریشن'، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی انتظامیہ اور پاکستانی بورڈ 'پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر' نے اتفاق کر لیا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ تقریباً ڈھائی ارب امریکی ڈالر کا بڑا پروجیکٹ ہے جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی پیدا کرنے کے لیے تعمیر کیا جائے گا۔ سی پیک کا مقصد چین کو پاکستان کی معروف بندرگاہ گوادر کو روڈ اور ریل کے ذریعے مربوط کرنا ہے۔ اس سے چین کو بحیرہ عرب تک براہ راست رسائی حاصل ہو جائے گی۔ یہ راہداری پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے گزرتی ہے اور بھارت اس کی مخالفت کرتا رہا ہے۔

Pakistan Der Schnellstraßenteil des KKH-Projekts
تصویر: picture-alliance/Xinhua/L. Tian

بھارت نے اس راہداری کے تعلق سے چین پر کئی بار اعتراض کیا ہے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایسی کسی بھی کارروائی کا مخالف ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان نے جب گلگت بلتستان میں ایک ڈیم بنانے کے پروجیکٹ پر چین کے ساتھ معاہدہ کیا تھا،  تب بھارت نے سخت اعتراض کیا تھا۔ بھارت کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا پورا علاقہ بھارت کا ہے اور پاکستان نے اس پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔

پاکستان کا موقف ہے کہ در اصل بھارت کشمیر کے ایک حصے پر جابرانہ طور پر قابض ہے اور کشمیری عوام کی مخالفت کے باوجود فوجی طاقت کے ذریعے بھارت کشمیری عوام پر اپنی مرضی مسلط کر رہا ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اس وقت تقریبا ًدس لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے

 اور وادی کشمیر گزشتہ تقریباً دس ماہ سے لاک ڈاؤن اور کرفیو جیسی بندشوں کی زد میں ہے۔

گلگت بلتستان میں پاکستان نے چین کے ساتھ 442 ارب ڈالر کی لاگت کے دائیمیر بھاشا ڈیم بنانے کا معاہدہ کیا ہے۔  بھارت نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ جموں، کشمیر، لداخ سمیت تمام علاقے بھارت کے حصے رہے ہیں، ہیں اور مستقبل میں بھی رہیں گے۔ ''ہم پاکستان اور چین دونوں کو پاکستان کے زیر قبضہ بھارتی علاقوں میں ایسے پروجیکٹس سے متعلق اپنے اعتراضات اور تشویشات سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔''

Projekt Wirtschaftskorridor Pakistan-China
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/A. Kamal

حال ہی میں جب گلگت بلتستان میں پاکستان نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کیا تھا تو اس پر بھی بھارت نے سخت اعتراض کیا تھا۔ بھارت نے اس کے رد عمل میں موسم سے متعلق اپنے یومیہ بلیٹنوں میں گلت بلتستان اور مظفرآباد کو بھی شامل کرنا شروع کردیا ہے۔   

لیکن چین اور پاکستان  بھارت کے ان بیانات پر کوئی توجہ دیے بغیر سی پیک کے تحت اس پورے علاقے میں ترقیاتی منصوبوں کا جال پھیلاتے جا رہے ہیں۔

 تجزیہ کارں کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اس طرح کے بڑے پروجیکٹ سے کافی پریشان ہے لیکن چونکہ معاملہ چین کا ہے اس لیے بیان بازی کو علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید