1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کی ’بیمار‘ فضائیہ خطرے میں

امتیاز احمد19 فروری 2015

بھارت اگر مغرب سے نئے جنگی طیارے نہیں خریدتا یا پھر مقامی دفاعی ٹھیکیدار اسے وقت پر ویسے ہی طیارے فراہم نہیں کرتے جیسے کہ فضائیہ چاہتی ہے تو بھارت کی پاکستان یا چین کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت واضح طور پر کم ہو جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1EeXS
Indien Flugzeugabsturz bei Jamnagar
تصویر: Reuters

نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق بھارت نے سن دو ہزار بارہ میں فرانس سے 126 رافیل فائٹر طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔ یہ ڈیل اس تنازعے کی وجہ سے رکی ہوئی ہے کہ بھارت ان جہازوں کی اسمبلنگ اپنے ملک میں چاہتا ہے۔ بھارت کا مقامی سطح پر تیار کردہ ہلکا جنگی طیارہ ’تیجس‘ آئندہ ماہ فضائیہ کے حوالے کیا جائے گا۔ بھارت نے اس جنگی طیارے کی تیاری تیس برس پہلے شروع کی تھی۔ ایئر فورس کے سینیئر افسران کو نجی محفلوں میں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ یہ طیارہ متاثر کن نہیں ہے۔ ایک سابق فائٹر پائلٹ کا کہنا تھا، ’’یہ طیارہ اتنی دیر سے تیار کیا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی متروک ہونے کے قریب ہے۔‘‘

بھارت آج کل اپنی بحریہ کو جدید تر بنانے کے عمل سے گزر رہا ہے لیکن ماہرین کی نظر میں بھارت کی فضائیہ کمزور ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فضائیہ کا انحصار روسی ساختہ ایس یو تھرٹیز، مگ اور فرانسیسی میراج لڑاکا طیاروں پر ہے۔ ان میں سے نصف سے زائد طیارے رواں سال سے لے کر سن دو ہزار چوبیس تک ناکارہ ہو جائیں گے۔

گزشتہ برس بھارتی ایئر فورس کے ریٹائرڈ افسر اے کے سچدیو نے انڈین ڈیفنس ریویو جریدے میں لکھا تھا، ’’بھارت کی یہ کمزوری ہمسایہ ملکوں کے ہاتھوں ہماری ذلت کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ روایتی حریف پاکستان اور چین کا مربوط حملہ بھارتی فوج کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نئی دہلی میں دفاعی حکمت عملی تیار کرنے والے پاکستان اور چین کے ممکنہ مشترکہ حملے کے مقابلے میں منصوبہ بندی پر زور دے رہے ہیں جبکہ ماہرین کے مطابق ایسے کسی حملے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔

متعدد حادثے

سن دو ہزار بارہ میں بھارتی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ گزشتہ دہائیوں میں بھارت کے نصف سے زائد مگ طیارے گر کر تباہ ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف چین مقامی سطح پر تیارہ کردہ جی ٹین فائٹرز کی چوتھی نسل استعمال کر رہا ہے جبکہ پانچویں نسل کے سٹیلتھ فائٹر جیٹ طیاروں کی آزمائشی پروازیں جاری ہیں۔ پاکستان اپنے لاک ہیڈ مارٹن F-16 کو اَپ گریڈ کر رہا ہے جبکہ چین کے تعاون سے تیار کردہ JF-17 لڑاکا طیارے بھی استعمال کر رہا ہے۔

واشنگٹن میں قائم ایرو اسپیس اور دفاعی امور کے ایک تھنک ٹینک کے نائب صدر اور تجزیہ کار رچرڈ ابو لافیہ کہتے ہیں کہ بھارت اپنی فضائیہ کے بڑے سائز کی وجہ سے اب بھی پاکستان سے جنگ جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن سست اَپ گریڈیشن کی وجہ سے اسے بھاری نقصان کے بعد ہی یہ جیت ملے گی۔ تاہم مقابلہ جاری رکھنے کے لیے بھارت مزید نئے Su-30s طیارے خرید رہا ہے اور موجودہ طیاروں کو اَپ گریڈ کر رہا ہے۔ بدھ کو بنگلور میں ایرو انڈیا ایئر شو کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا، ’’ہمیں اپنے دفاع کے لیے تیاریاں بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘‘

بھارت دنیا میں دفاعی ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ دیگر ملکوں پر انحصار کم کیا جائے تاہم فرانس رافیل طیارے بیچنے پر تو تیار ہے لیکن بھارت میں اس کی پروڈکشن پر تیار نہیں ہے۔ اس طرح طیارہ بنانے کی ٹیکنالوجی بھارت کے ہاتھ آ جائے گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس ڈیل کی منسوخی بھارتی فضائیہ کے لیے ’تباہ کن‘ ہو گی۔

دوسری جانب بھارت اپنی بحریہ کو بھی تیزی سے جدت کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ جمعرات اُنیس فروری کو ہی بھارت نے خاص طور پر چینی بحریہ کے مقابلے پر اپنی بحری قوت بڑھانے کے لیے سات نئے جنگی بحری جہاز تیار کرنے کے لیے آٹھ ارب ڈالر کی منظوری دی ہے۔ چین کی بحریہ اب بھی بھارت کے مقابلے میں بہت بڑی ہے۔