1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کم ترقی یافتہ ملکوں کو راغب کرنے کی کوشش

24 فروری 2011

سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے حصول کی کوشش میں بھارت نے جہاں گزشتہ برس پانچ بڑی طاقتوں کو راغب کرنے کی کوشش کی، وہیں اس سال اپنی خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلی کرتے ہوئے کم ترقی یافتہ ملکوں پر اپنی توجہ مرکوز کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/10Oqt
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھتصویر: AP

بھارت نے اپنی اس نئی کوشش کے تحت پچھلے دنوں یہاں کم ترقی یافتہ ممالک (LDC)کا ایک اجلاس منعقد کیا، جو کم ترقی یافتہ ملکوں کا اب تک کا سب سے بڑا اجلاس تھا۔ 48 ممالک پر مشتمل ایل سی ڈی کے 40 ممالک نے اس میں شرکت کی۔ بھارت نے اس موقع پر کم ترقی یافتہ ملکوں کے لئے پانچ ملین امریکی ڈالر کے اسپیشل فنڈ اور 500 ملین ڈالر کی کریڈٹ لائن کے ساتھ ان میں سے ہر ملک کے لئے پانچ پانچ وظائف کا بھی اعلان کیا۔ بھارت نے ان ملکوں کی اقتصادی ترقی کے لئے ان کے یہاں سرمایہ کاری کا بھی وعدہ کیا۔

خیال رہے کہ یکم جنوری سے بھارت نے سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس یہا ں سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل اراکین امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین کے سربراہوں نے دورے کئے۔ اس نے مستقل رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کے تحت اس سال پہلے اقوام متحدہ میں بحیرہء کیریبین کے بارہ ملکوں کے مستقل نمائندوں کو یہاں مدعو کیا اور اپنی صنعتی اور اقتصادی ترقی کا مشاہدہ کرایا۔ اس کے بعد کم ترقی یافتہ ملکوں کی کانفرنس منعقد کی اور اب آئندہ مئی میں وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ افریقی ملکوں کا دورہ کرنے والے ہیں۔

China Afrika Forum in Peking 2006
2006ء میں چینی حکومت نے بھی بیجنگ میں چین اور افریقی ممالک کے ایک اجلاس کا اہتمام کیا تھا، جس کے نتیجے میں براعظم افریقہ میں چین کی اقتصادی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیاتصویر: picture-alliance/ dpa

خارجہ امور کے ماہر شاستری راما چندرن نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے اس نئی پیش رفت کے حوالے سے کہا کہ اگرچہ یہ کم ترقی یافتہ ممالک ہیں لیکن بھارت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ اقوام متحدہ میں ووٹنگ کے معاملے میں ان کی کافی اہمیت ہے اور ان کا ووٹ بھی بڑے اور طاقتور ملکوں کے برابر ہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ میں کم ترقی یافتہ ملکوں کی تعداد مجموعی تعداد کا 25 فیصد ہے اور جس طرح سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکن کی حیثیت حاصل کرنے کے لئے ان ملکوں کا تعاون بھارت کے لئے کافی اہم ثابت ہوا، اسی طرح جب کبھی مستقل رکنیت کے لئے ووٹنگ ہوگی، ان ملکوں کی حمایت کافی اہم ثابت ہوگی۔ شاستری راما چندرن کا تاہم خیال ہے کہ بھارت کو ان کم ترقی یافتہ ملکوں کی حیثیت میں جو ووٹ بینک ملا ہے، اسے برقرار رکھنا اس کے لئے ایک چیلنج ہوگا ۔

Veto im UN Sicherheitsrat: USA blockieren UN-Resolution gegen Israel
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں صرف پانچ مستقل رکن ملکوں امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کو ویٹو کا حق حاصل ہےتصویر: AP

خیال رہے کہ افریقہ کے 33، ایشیا بحراکاہل کے 14 اور کیریبین اور لاطینی امریکہ کے ایک ایک ملک پر مشتمل کم ترقی یافتہ ممالک کو یہ شکایت رہی ہے کہ بین الاقوامی برداری ان پر خاطرخواہ توجہ نہیں دیتی ہے۔ جہاں 1971ء میں ایسے ملکوں کی تعداد 25 تھی، وہاں اس سال بڑھ کر 48 ہوگئی ہے۔ دوسری طرف یہ ممالک بھارت کے ساتھ اقتصادی تعاون اور دیگر باہمی معاہدے کرنے میں اپنے آپ کو زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں کیوں کہ بھارت انہیں مالی امداد دیتے وقت امریکہ اور یورپی یونین کی طرح حقوق انسانی، شہری آزادیوں اور جمہوریت کی بحالی جیسی شرطیں عائد نہیں کرتا۔

آج کل اقوام متحدہ میں اصلاحات کا معاملہ ایک اہم مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس مقصد کے لئے جو پانچ رکنی کمیٹی بنائی ہے، اس نے پانچ صفحات کا ایک مسودہ تیار کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق بھارت کی نئی کوششوں کا مقصد یہی ہے کہ اگر اس مسودے کو ووٹنگ کے لئے لایا جائے تو اس کے حق میں ماحول پہلے سے تیار رہے۔اس دوران سفارتی ذرائع نے کہا ہے کہ بھارت اور گروپ جی فور کے دیگر ممالک یعنی جرمنی، برازیل اور جاپان کو اس تجویز پرکوئی اعتراض نہیں ہے کہ نئے مستقل اراکین کو پندرہ برس گزرنے کے بعد ہی ویٹو کا اختیار دیا جائے گا تاہم ان کا کہنا ہے کہ ویٹو پاور کے بغیر دوسرے درجے کا شہر ی بن کر رہنا انہیں قبول نہیں ہوگا۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں