1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت : کسانوں کی دس روزہ ملک گیر ہڑتال شروع

جاوید اختر، نئی دہلی
1 جون 2018

بھارت میں کسانوں کی خودکشی کی شرح میں کمی کے حکومتی دعوؤں کے باوجود کسانوں نے اپنے مطالبات پر زور دینے کے لیے یکم جون سے دس روزہ ملک گیر ہڑتال شروع کردی ہے۔ کسانوں نے آج بروز جمعہ ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے بھی کیے۔

https://p.dw.com/p/2yoCt
Indien Proteste der Bauern
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Kakade

کسانوں کی تقریباً ایک سو تیس تنظیموں کی جانب سے اس ملک گیر ہڑتال کے نتیجے میں پھل، سبزیوں اور دودھ جیسی بنیادی ضرورت کی چیزوں کی قلت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ کسانوں نے آج بروز جمعہ ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے بھی کیے ۔ ناراض کسانوں نے سڑکوں پر سبزیاں اور پھلوں کو پھینک دیا اور ہزاروں لیٹر دودھ بہا دیا۔ انہوں نے متعدد مقامات پر سڑکوں کو بند کرنے کی کوشش کی جبکہ کئی جگہوں پر توڑ پھوڑ کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔

مودی حکومت کا آخری بجٹ پارلیمان میں، غرباء کے لیے خاص مراعات

بھارت: قرض نادہندہ کسان ٹریکٹر کے نیچے کچل دیا گیا

بھارت میں خشک سالی: اور کتنے کسانوں کو جان سے جانا ہو گا؟

اس ہڑتال کاسب سے زیادہ اثر وسطی صوبے مدھیہ پردیش میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں انتظامیہ نے احتیاطی اقدامات کے طور پر  پندرہ ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کر رکھے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں پولیس نے گزشتہ سال جون میں کسانوں کے ایک احتجاجی مظاہرے پر  فائرنگ کر دی تھی، جس کے نتیجے میں پانچ کسان ہلاک ہوگئے تھے۔

کسانوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں فصل پر آنے والی مجموعی لاگت کی ڈیڑھ گنا قیمت دی جائے،کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں، چھوٹے کسانوں کے لیے ایک مقررہ آمدنی طے کی جائے اور پھل ، دودھ اور سبزی کو امدادی قیمت کے دائرہ کار میں لاکر ان کی ڈیڑھ گنا قیمت دی جائے۔

بھارت میں کسانوں کو’ان داتا‘ یعنی اناج دینے والا کہا جاتا ہے لیکن ان کی حالت مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے۔ سن ساٹھ کی دہائی میں ملک میں آئے سبز انقلاب کے بعد سے اناج کی پیداوار میں اضافہ تو ضرور ہوا لیکن اس سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ کیمیاوی کھاد وغیرہ کے استعمال کی وجہ سے جہاں کھیتوں کی زرخیزی کم ہوتی گئی، وہیں کھیتی باڑی کے ساز وسامان کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب انہیں اپنے کنبے کی کفالت میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے سبب انہیں قرض لینا پڑتا ہے اور اس قرض کے جال میں پھنسنے کے بعد خودکشی کرکے ہی انہیں نجات مل پاتی ہے۔

کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہر فصل کے ساتھ کسان کا قرض بڑھ رہا ہے۔ کسان جب تحریک چلاتے ہیں تو فائرنگ کرکے انہیں خاموش کر دیا جاتا ہے۔ آج صورت حال انتہائی نازک ہے کیوں کہ گزشتہ پندرہ سال میں ساڑھے تین لاکھ کسان خودکشی پر مجبور ہو چکے ہیں جب کہ مودی حکومت کے گزشتہ چار سال کے عرصے میں خودکشی میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔

کسانوں کی صورت حال کے حوالے سے کسان رہنماؤں کے ایک وفد نے پچھلے دنوں بھارتی صدر رام ناتھ کووند کو ایک میمورنڈم دیا تھا ۔ اس وفد کے ایک رکن اور آ ل انڈیا کسان سبھا کے رہنما اتل کمار انجان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،  ’’فصل کی واجب قیمت نہیں ملنے اور قرض مسلسل بڑھنے کے سبب ملک بھر کے کسان خودکشی کر رہے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔‘‘

اتل کمار انجان کا کہنا تھا کہ آج کسان انا ج اگانے پر جو رقم خرچ کرتے ہیں اس کی لاگت بھی انہیں نہیں مل پاتی ہے۔ انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا،  ’’ایک کوئنٹل گیہوں پر لاگت ڈھائی ہزار روپے آتی ہے لیکن کسان کو بازار میں پندرہ سو سے اٹھارہ سو روپے ہی ملتے ہیں ۔ کھاد جو پہلے 460 روپے فی بوری ملتی تھی اب بڑھ کر 1260روپے فی بوری ہوگئی ہے۔ اس کے لیے کسان کو قرض لینا پڑتا ہے اور جب وہ اپنا قرض ادا نہیں کر پاتا ہے تو اس کے سامنے خودکشی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔‘‘

کسان رہنماؤں  نے حکومت سے کسانوں کے قرضے معاف کرنے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا، ’’جب حکومت سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کے چوبیس لاکھ کروڑ روپے معاف کرسکتی ہے تو کسانوں کے بارہ لاکھ کروڑ روپے کیوں معاف نہیں کر رہی ہے۔‘‘

اس دوران حکومت نے دعوی کیا ہے کہ ملک میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ زراعت کے جونیئر وزیر پرشوتم روپالا نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ کسانوں کی خودکشی کی تعداد میں دس فیصد کی کمی آئی ہے۔سن 2016 میں 11370کسانوں نے خودکشی کی تھی جب کہ اس سے پچھلے سال یعنی سن 2015 میں کسانوں کی خودکشی کی تعداد 12602 تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ 2011 ء کے اعدادوشمار کے مطابق کسانوں کی خودکشی کی شرح  قومی خودکشی اوسط سے سینتالیس فیصد زیادہ ہے اور کھیت مزدور کے مقابلے میں زمین مالکان میں خودکشی کی شرح زیادہ ہے۔

گوکہ بھارت میں کسانوں کی آمدنی کے حوالے سے کوئی تازہ ترین مصدقہ اعدادو شمار دستیاب نہیں ہیں تاہم نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کی سن2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2012 میں کھیتی کرنے والے کنبوں کی اوسط ماہانہ آمدنی  6426 روپے تھی۔

نریندر مودی حکومت نے کسانوں کے فلاح و بہبود کے لیے متعدد اسکمیں شروع کر رکھی ہیں اورسن  2022تک ، جب بھارت اپنی آزادی کی پچھترویں سالگرہ منائے گا، کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ تاہم کسان اور کسان رہنما ان دعوؤں کو شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پچھلے دنوں بھارت کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں کیرانہ پارلیمانی اور نور پور اسمبلی حلقہ کے لیے ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست کی بڑی وجہ کسانوں کی ناراضی ہے۔