1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کا پہلا مشاہداتی مرکز خلا میں

عدنان اسحاق28 ستمبر 2015

بھارت نے چند امریکی سیٹیلائٹس کے ساتھ اپنا پہلا مشاہداتی مرکز خلا میں روانہ کر دیا ہے۔ یہ نئی مہم وزیر اعظم مودی کے اس منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد تین سو ارب ڈالر کی عالمی خلائی صنعت میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GeW8
تصویر: Reuters

بھارتی وزیر برائے سائنسی امور ہرش وردھن کے مطابق خلا کے مشاہدے کے لیے اس مرکز کی روانگی فلکیات کے شعبے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ’Astrosat ‘ نامی اس مشاہداتی مرکز کے ذریعے بھارتی محققین کو فلکیات کے راز جاننے میں مدد ملے گی اور مزید گہرائی کے ساتھ ستاروں کے نظام کا تجزیہ کرنے کا موقع ملے گا۔

بیک وقت چھ سیٹیلائٹس ایک ایسے وقت میں خلا میں بھیجے گئے جب ابھی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات میں صرف چند گھنٹے باقی تھے۔ ان چھ میں سے چار سیٹیلائٹ امریکا کے تھے۔

نریندر مودی بھارتی خلائی پروگرام کو تیزی سے ترقی دینے کا عزم کیے ہوئے ہیں اور اپنے سائنسدانوں کے کارکردگی کو تواتر سے سراہتے رہتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ قبل بھارتی سائنسدانوں کو اس وقت عالمی سطح پر بڑی پذیرائی حاصل ہوئی، جب کم لاگت سے تیار کیا ہوا ان کا ’مارس مشن‘ اپنی پہلی ہی کوشش میں اس سرخ سیارے کے مدار میں داخل ہو گیا۔

Modernes Indien, Raumfahrt
یہ مشاہداتی مرکز اپنا ڈیٹا بنگلور میں موجود مرکز کو بھیجے گاتصویر: picture-alliance/dpa

اس کامیابی کے باوجود بھارتی خلائی پروگرام اس تیزی سے ترقی نہیں کر رہا، جس کی امید کی جا رہی تھی۔ اس کی وجہ بھاری لانچرز کا فقدان ہے جبکہ خلائی پروگراموں پر عمل درآمد بھی بہت سست روی سے کیا جاتا ہے۔ 2007ء سے2012ء کے درمیان ساٹھ مشن طے کیے گئے تھے، لیکن ان میں سے صرف نصف کو ہی پایہٴ تکمیل تک پہنچایا جا سکا۔

’Astrosat ‘کو امریکی خلائی مرکز ناسا کی ’ Hubble Space Telescope ‘ کی ایک چھوٹی شکل قرار دیا جا سکتا ہے۔ ناسا نے اسے 1990ء میں لانچ کیا تھا۔ Astrosat میں نصب پانچ میں سے تین سائنسی آلات بنیادی تحقیق کے ٹاٹا مرکز نے بنائے ہیں۔ یہ مشاہداتی مرکز اپنا ڈیٹا بنگلور میں موجود مرکز کو بھیجے گا اور وہیں سے اسے اس کے پانچ سالہ مشن کے دوران کنٹرول بھی کیا جائے گا۔