1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت پاکستان میں مزید تلخیاں، سفارتی عملہ نصف کرنے کا فیصلہ

24 جون 2020

بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی سفارتخانے کے عملے کو نصف کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد پاکستان نے بھی اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے عملے کو سات روز کے اندر نصف کرنے کی ہدایت دی ہے۔

https://p.dw.com/p/3eFB2
Flagge Pakistan und Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Sharma

بھارتی وزارت خارجہ نے منگل کو اپنے ایک بیان میں نئی دہلی میں واقع پاکستانی ہائی کمیشن پر جاسوسی اور شدت پسندی کی اعانت جیسے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے پاکستان سے اپنے سفارتی عملے میں 50 فیصد کی کمی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں بھارت نے پاکستان کے ناظم الامور سید حیدر شاہ کو وزارت خارجہ طلب کیا گیا اور حکومت کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔

بھارت کا الزام ہے کہ پاکستانی سفارت کار ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں جو ہائی کمیشن کی سفارتی آداب کے منافی ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اسلام آباد میں بھارتی سفارت کاروں کو ان کی جائز ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں رخنہ ڈالتا ہے اور بھارتی سفارت کاروں کو ڈرانے دھمکانے کا کام ہوتا رہا ہے۔

پاکستان نے اپنے سفارت کاروں پر جاسوسی کرنے اور شدت پسند تنظیموں سے روابط رکھنے جیسے بھارتی الزامات کو بے بنیاد بتاتے ہوئے انہیں لغو قرار دیا۔ اسلام آباد نے بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ پاکستان نے بھی بھارت کو آئندہ سات روز کے اندر اپنے سفارتی عملے میں 50 فیصد کٹوتی کرنے کی ہدایت دی ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں بھارت کی جانب سے ویانا کنونشن کی خلاف ورزیوں کے تمام الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا سفارتی عملہ بین الاقوامی سفارتی آداب کی ہمیشہ سے پاسداری کرتا رہا ہے اور عالمی اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی خدمات انجام دیتا ہے۔

پاکستان نے بھارت کے ان الزامات کو بھی سختی سے مسترد کیا کہ اسلام آباد میں بھارتی سفارت کاروں کو ڈرایا یا دھمکایا جا تا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کو بدنام کرنے کی جو مہم چلائی جا رہی ہے اس میں اسلام آباد میں تعینات بھارتی سفارتی عملے کی غیر قانونی  سرگرمیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں اور بھارتی وزارت خارجہ کے بیانات در اصل انہیں سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔

بھارتی حکومت کا کہنا تھا کہ، ''پاکستان کا رویہ ویانا کنونشن اور سفارتی سطح پر دو طرفہ معاہدوں کے مطابق نہیں ہے۔  اس کے برعکس سرحد پار سے تشدد اور دہشتگردی کی حمایت کرنے کی پالیسی اس کا داخلی عنصر ہے۔ حالیہ دنوں میں دو بھارتی سفارتی اہلکاروں کا بندوق کی نوک پر اغوا اور ان کے ساتھ بدسلوکی سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کس سمت میں چل پڑا ہے۔''

چند ہفتے قبل نئی دہلی نے پاکستانی ہائی کمیشن کے دو سفارت کاروں کو جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔ بھارت نے انہیں نا پسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے فورا ًملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اسلام آباد میں بھی بعض بھارتی سفارت کار کچھ وقت کے لیے لا پتہ ہوگئے تھے جس کے لیے بھارت نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔

بھارتی حکومت نے پاکستان کے ساتھ اس طرح کا رویہ ایک ایسے وقت اپنایا ہے جب سرحد پر چین کے ساتھ زبردست کشیدگی کا ماحول ہے۔ چند روز قبل ہی مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔  بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے مودی پر چین کے سامنے کمزور پڑنے کا الزام عائد کیا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کی سرحد پر جو کچھ بھی ہوا اس سے جہاں بھارتی حکومت سخت دباؤ میں ہے وہیں عوام میں بھی کافی غم و غصہ ہے اور پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح  پر اس طرح کی کارروائی سے حکومت یہ تاثر دینا چاہتی ہے اس کے پاس ایک مضبوط قیادت ہے جو سخت اقدامات کر سکتی ہے۔ 

صلاح الدین زین، سری نگر، کشمیر

’عمران خان کو بھارتی مسلمانوں کی قیادت کرنے کی اجازت نہیں‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید