1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف طلبہ کے احتجاجی مظاہرے

16 دسمبر 2019

بھارت کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ اور دانشوروں نے ملکی دارالحکومت نئی دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے خلاف پولیس کی پرتشدد کارروائی کی شدید مذمت کی ہے اور اس کے خلاف بڑی تعداد میں طلبا سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3UtOT
نئی دہلی میں جامعہ ملیہ کے مرکزی دروازے کے سامنے احتجاج کرتے طلبہتصویر: Reuters/S. Phartiyal

ادھر حزب اختلاف کی جماعتوں نےجامعہ ملیہ میں ’پولیس کی پر تشدد کارروائیوں‘ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس پارٹی، بائیں بازو کے محاذ اور دیگر علاقائی جماعتوں کے رہنماؤں نے نئی دہلی میں اس بارے میں ایک مشترکہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیر سولہ دسمبر کے روز کہا کہ پولیس کا یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کیمپس میں داخلہ ممنوع ہوتا ہے، تو پھر وہ پولیس، جو مرکزی حکومت کے ماتحت ہے، کیمپس میں داخل کیسے ہوئی؟ اس موقع پر کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ کے رہنما سیتارام یچوری نے سوال کیا، ’’آخر وزیر داخلہ کہاں ہیں؟‘‘

اس کے بعد ملکی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ایک ٹویٹ میں ان مظاہروں کو ’بدقسمتی‘ اور ’تکلیف دہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بحث و مباحثہ اور اختلافات جمہوریت کا حصہ ہیں لیکن ’توڑ پھوڑ ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہے‘۔ 

اتوار پندرہ دسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا، جس دوران آتش زنی کے چند واقعات کے بعد پولیس نے طلبہ مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل فائر کرنے کے علاوہ لاٹھی چارج بھی کیا۔ اس دوران درجنوں طلبہ زخمی بھی ہو گئے، جن میں سے کئی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ مظاہرین کا پولیس پر الزام ہے کہ اس نے لائبریری میں گھس کر طلبہ پر لاٹھی چارج کیا اور پھر ان کی ایک بڑی تعداد کو حراست میں بھی لے لیا۔

Indien, Neu-Delhi: Studentenproteste an der Jamia Millia Islamia University
تصویر: picture-alliance/AP/M. Swarup

آج پیر کی صبح سے ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ،  لکھنؤ کے ندوہ کالج، دہلی یونیورسٹی، کولکتہ، جادھو پور اور شمال مشرقی ریاستوں کی کئی یونیورسٹیوں سمیت بہت سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ جامعہ ملیہ میں اس پولیس تشدد اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ ممبئی کے معروف آئی آئی ٹی کالج، مدارس، چندی گڑھ اور بنارس کی ہندو یونیورسٹی میں بھی طلبہ نے جامعہ ملیہ کے طالب علموں کی حمایت میں آج اپنی کلاسوں کا بائیکاٹ کیا۔

جامعہ ملیہ میں پولیس کی کارروائی اتوار کو مغرب کے وقت شروع ہوئی تھی اور جیسے ہی اس واقعے کی خبر پھیلی، دہلی کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ، سماجی کارکن اور دانشور پولیس ہیڈکوارٹرز پہنچ گئے جہاں ان کا پولیس کے خلاف دھرنا رات گئے تک جاری رہا۔ اس دھرنے میں جامعہ ملیہ کے ساتھ ساتھ جواہر لعل نہرو اور دہلی یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی بھر پور حصہ لیا۔ جامعہ ملیہ کی حمایت میں تاریخی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، حیدرآباد کی مولانا آزاد یونیورسٹی، ممبئی اور بنارس کی ہندو یونیورسٹی سمیت کئی بڑے اداروں میں بھی رات گئے تک طلبہ کا احتجاج جاری رہا۔

احتجاج نہ رکنے کی صورت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی انتظامیہ نے پولیس کو کیمپس میں طلب کر لیا اور طلبا پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ یوں وہاں رات بھر افراتفری کا ماحول رہا۔ علی گڑھ مسلم یونورسٹی کے ترجمان شافع قدوائی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف یونیورسٹی میں گزشتہ کئی روز سے مظاہرے پر امن تھے لیکن کل رات جامعہ ملیہ کے بارے میں خبر ملنے کے بعد ماحول پر تشدد ہوگيا، جس کے باعث مجبوراﹰ انتظامیہ کو پولیس کو طلب کرنا پڑا۔

Indien Proteste gegen Staatsbürgerschaftsgesetz
تصویر: Reuters/A. Abidi

شافع قدوائی نے بتایا، ’’حالات کے پیش نظر موسم سرما کی تعطیلات پہلے کر دی گئی ہیں۔ یونیورسٹی کو آج سے جنوری کے پہلے ہفتے تک کے لیے بند کر دیا گيا ہے۔ تمام ہوسٹل خالی کرائے جا رہے ہیں اور طلبہ کو واپس ان کے گھروں کو بھیجنے کے لیے خصوصی بسوں اور ٹرینوں کا انتظام کیا جا رہا ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ویسے تو متعدد طلبہ زخمی ہوئے ہیں، لیکن چار کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، جن کی حالت اب خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔

اسی دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پولیس بغیر اجازت کے یونیورسٹی کمیپس میں داخل ہوئی تھی اور طلبہ کو بڑی بے رحمی سے مارا پیٹا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کارروائی میں 200 سے زائد طلبہ زخمی ہوئے اور اس دوران بڑے پیمانے میں توڑ پھوڑ بھی ہوئی۔

اس سے قبل نجمہ اختر نے طلبہ کی حمایت میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ طلبہ کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے، اس سے انہیں تکلیف پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں طلبہ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ وہ اس لڑائی میں تنہا نہیں ہیں۔ میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ جہاں تک بھی ممکن ہوا، میں اس معاملے کو آگے تک لے کر جاؤں گی۔‘‘

آج پیر کی صبح سرکردہ سماجی کارکنوں اور وکلاء نے پولیس تشدد پر قابو پانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تاہم عدالت نے اس پر یہ کہتے ہوئے سماعت کل منگل تک کے لیے ملتوی کر دی کہ پہلے اس وجہ سے فسادات بند ہونے چاہییں، تبھی سماعت ہو سکتی ہے۔ پولیس تشدد کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی گئی تھی تاہم عدالت نے اس کی سماعت سے انکار کر دیا۔

بھارت میں پاکستانی ہندوؤں نے نئی شہریت بل کا خیرمقدم کر دیا

ادھر پولیس حکام کا کہنا ہے کہ تشدد کو روکنے کے لیے اسے بعض مواقع پر سخت کارروائی کرنا پڑی اور اس تشدد میں کئی پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں اور اس پورے عمل کے دوران ’پولیس نے طاقت کا کوئی بےجا استعمال نہیں کیا‘۔

شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ملک گیر سطح پر بھی احتجاج ہو رہا ہے اور کئی ریاستوں میں پر تشدد مظاہروں کے بعد انٹرنیٹ رابطے معطل کر دیے گئے ہیں۔ کل اتوار کو ممبئی میں اس قانون کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرتے ہوئے معروف فلم ساز مہیش بھٹ نے کہا تھا، ’’اب وقت آ گیا ہے کہ امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔‘‘

بھارت میں دریں اثناء کئی ریاستوں نے اس قانون کو نافذ نہ کرنے کی بات بھی کی ہے۔ ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی، کیرالا کے وزیر اعلیٰ پینرائی ویجئن، پنجاب کے امریندر سنگھ، مدھیہ پردیش کے کمل ناتھ، چھتیس گڑھ کے بھوپیش بگھیل اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اپنی ریاستوں میں مرکزی حکومت کے منظور کردہ اس قانون پر عمل نہیں کریں گے۔

زین صلاح الدین، نئی دہلی

بابری مسجد کے انہدام کو ستائیس سال ہو گئے، بھارت میں مظاہرے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں