1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت ميں نومولود بچوں کی موت پر سیاست

جاوید اختر، نئی دہلی
2 جنوری 2020

بھارتی رياست راجستھان کے شہر کوٹا کے ایک ہسپتال میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 102 نومولود بچے ہلاک ہو چکے ہيں تاہم سیاسی جماعتیں اس معاملے کی باقاعدہ تحقيقات کے بجائے ايک دوسرے پر انگلياں اٹھانے ميں مصروف دکھائی ديتی ہيں۔

https://p.dw.com/p/3VbOG
Indien Geburtenrate
تصویر: Getty Images/AFP/R. Schmidt

کوٹا کے جے کے لون ہسپتال میں بدھ يکم جنوری کی رات مزید دو بچوں نے دم توڑ دیا۔ پچھلے بہتر گھنٹوں کے دوران گیارہ بچوں کی موت کے ساتھ پچھلے قريب ايک ماہ کے دوران مرنے والے بچوں کی تعداد 102 ہو گئی ہے۔ اور اگر ایک سال کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 960 کے لگ بھگ ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ بیشتر نومولود بچوں کا پيدائش کے وقت وزن بہت کم تھا۔ انتظاميہ کے مطابق اس کی وجہ يہ تھی کہ اہل خانہ نے حاملہ خواتین کے لیے مقررہ ہدایات پر عمل نہیں کیا اور جب وہ ہسپتال پہنچيں، تو ان کی حالت پہلے ہی سے کافی نازک تھی۔

اتنی بڑی تعداد میں نوزائدہ بچوں کی اموات پر راجھستان میں کانگریس کی قیادت والی اشوک گہلوت کی حکومت اپوزیشن جماعتوں کے نشانے پر ہے۔ تاہم رياستی حکومت نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بچوں کی اموات پر انتہائی فکر مند دکھائی ديتی ہے اور اس معاملے پر سیاست نہیں کی جانی چاہيے۔ اشوک گہلوت نے ٹوئٹر پر لکھا، ”کوٹا کے اس ہسپتال میں بچوں کی موت میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ ہم اسے مزید کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ماؤں اور بچوں کی صحت ہماری اولین ترجیح ہے۔"

يہاں يہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بھارتی حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی ماضی میں خود بھی ایسے واقعات پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کے پارلیمانی حلقے گورکھ پور میں بچوں کی اموات پر کانگریس نے کافی ہنگامہ کھڑا کیا تھا۔

اب راجھستان ميں اس پيش رفت پر بی جے پی نے کانگریس حکومت پر بے حسی کا الزام لگایا ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمان لاکیٹ چٹرجی نے مذکورہ ہسپتال کے دورے سے واپسی پر ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ہسپتال کی صور ت حال انتہائی ابتر اور افسوس ناک ہے۔ کسی کا ہسپتال کے اندر جانا بھی مشکل ہے۔ وہاں ہر طرف گندگی پھیلی ہوئی تھی اور سور ہر طرف گھوم رہے تھے۔ ایک ایک بیڈ پر چار چار، پانچ پانچ بچے پڑے ہوئے تھے۔" بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اس رکن پارلیمان نے بتايا کہ گزشتہ روز جس بچے کی موت ہوئی، اس کے والدین سے ان کی ملاقات ہوئی۔ چٹرجی کے بقول بچے کے والدین کا کہنا تھا کہ ہسپتال ميں ڈاکٹر، نرسوں حتیٰ کہ ادويات کی بھی کمی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ایسے حالات میں جو ہوا، وہ تو ہونا ہی تھا۔"

قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کے ایک وفد نے بھی ہسپتال کا حال ہی ميں دورہ کرنے کے بعد اپنے بیان میں کہا تھا کہ جانچ کے دوران ہسپتال میں سنگین خرابیاں پائی گئیں۔ وارڈ يا کمروں کی کھڑیاں اور دروازے ٹوٹے ہوئے تھے، سور ہر طرف گھوم رہے تھے اور اسٹاف کی شدید قلت تھی۔

دريں اثناء نومولود بچوں کی اموات پر سیاست بھی زور و شور سے جاری ہے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ، جن کے آبائی شہر گورکھ پور میں اگست 2017ء میں ایک ماہ میں ساٹھ بچے ہلاک ہو گئے تھے، نے ایک ٹوئٹ میں لکھا، ”ایک سو سے زائد بچوں کی موت انتہائی افسوس ناک ہے۔ مہذب سماج میں اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور جنرل سيکرٹری پرینکا گاندھی عورت ہوتے ہوئے بھی ماؤں کے دکھ درد کو سمجھ نہیں پا رہیں۔"

بی ایس پی کی رہنما اور اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے ایک سے زائد ٹوئيٹس ميں ان خيالات کا اظہار کيا، ”کانگریس کی حکومت والی ریاست راجستھان کے کوٹا ضلع میں سو سے زائد معصوم بچوں کی موت اور ماؤں کی گود اجڑنا، انتہائی افسوس ناک اور درد ناک بات ہے۔ راجستھان کے وزیر اعلی خود اور ان کی حکومت اس مسئلے کے تئیں بے حس ہے اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنائے ہوئے ہيں، جو قابل مذمت ہے۔"

اقلیتی امور کے وفاقی وزیر مختار عباس نقوی نے کوٹا ہسپتال میں بچوں کی اموات کو اب تک کا سب سے بڑا 'قتل عام‘ قرار دیا ہے۔ بھارت میں ہسپتالوں میں بچوں کی اتنے بڑے پیمانے پر اموات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی ميں بھی اس طر ح کے چند واقعات ہو چکے ہيں اور ہر واقعے پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے ايک دوسرے پر الزامات اور حکومت کی طرف سے وعدے اور اعلانات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

دریں اثناء راجستھان حکومت نے دعوی کیا ہے کہ ریاست میں نومولود بچوں کی اموات میں کمی آ رہی ہے۔ سن 2014 میں 1198 بچوں کی موت ہوئی تھی جبکہ سن 2018 میں یہ تعداد 1005 اور سن 2019 میں 963 رہی۔

بریسلٹ بھارت کے نومولود بچوں کی زندگیاں بچانے کا سبب

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید