1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: سرکاری ہسپتال میں کم از کم 60 بچے ہلاک

12 اگست 2017

بھارت کے ایک سرکاری ہسپتال میں گزشتہ پانچ روز کے دوران کم از کم ساٹھ بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔ والدین کے مطابق یہ ہلاکتیں بچوں کے وارڈ میں آکسیجن کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے ہوئی ہیں اور ان میں اضافے کا خدشہ ہے۔

https://p.dw.com/p/2i6zY
Indien Uttar Pradesh - Verwandte trauern um den Tod eines Kindes im Krankenhaus in Gorakhpur wegen Mangelndem Sauerstoff
تصویر: Getty Images/AFP

بھارتی ریاست اتر پردیش میں گورکھپور کے ایک سرکاری  ہسپتال میں ہلاک ہونے والے کم از کم ساٹھ بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ بچوں کے وارڈ میں آکسیجن کی فراہمی کی کمی کی وجہ سے یہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ دوسری جانب ضلعی مجسٹریٹ راجیو روتیلا نے بتایا ہے کہ بابا راگھیو داس میڈیکل ہسپتال میں مختلف بیماریوں میں مبتلا ان بچوں کا علاج ہو رہا تھا اور یہ کہ ہلاکتیں قدرتی وجوہات کی بنیاد پر ہوئی ہیں۔

 انہوں نے ان الزامات سے انکار کیا ہے کہ آكسجين کی سپلائی میں کمی کی وجہ سے بچوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ دریں اثناء ریاستی حکام نے اس حوالے سے تحقیقات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ بھارت کی اس ریاست میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔

ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ وارڈ میں آکسیجن کی سپلائی جمعرات کی رات کو ہی ختم ہو گئی تھی اور والدین کو ’سیلف انفلیٹنگ بیگ‘ دیے گئے تھے تاکہ بچوں کو سانس لینے میں مدد فراہم کی جا سکے۔ بتایا گیا ہے کہ صرف ایک دن جمعرات کو ہی تئیس بچے ہلاک ہوئے۔ 

اسی ہسپتال میں اپنے سات ماہ کے بچے کو داخل کروانے والے مرتيجی سنگھ کہتے ہیں، ’’یہ وہ وقت ہے جب سب سے زیادہ بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔‘‘ نوبل انعام یافتہ اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کیلاش ستیارتھی نے اس واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سانحہ نہیں بلکہ ’قتل عام‘ ہے۔

 ریاستی وزارت صحت سے منسلک اعلیٰ ترین ڈاکٹر پرشانت ترپاٹھی نے تسلیم کیا ہے کہ آکسیجن سپلائی کرنے والی پائپ لائن میں کچھ مسئلہ تھا۔ ان کے مطابق، ’’لیکن آکسیجن سیلنڈروں کی مدد سے کام چل رہا تھا۔ ہسپتال کے گودام میں کافی سیلنڈر موجود ہیں۔ لہذا یہ خبریں غلط ہیں کہ بچوں کی اموات آکسیجن کی کمی سے ہوئی ہیں۔‘‘

بھارت میں دم توڑتی مائیں

دوسری جانب بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ ہسپتال کو آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی نے دھمکی دی ہوئی تھی کہ اگر حکومت نے اس کے بقایا جات ادا نہیں کیے تو وہ آکسیجن کی سپلائی روک دے گی۔ راجیو روتیلا کا کہنا ہے، ’’ہسپتال پر کمپنی کے 68 لاکھ روپے واجب الادا ہیں لیکن ہسپتال میں آکسیجن کے کافی سیلنڈر موجود ہیں۔‘‘

میڈیا اطلاعات کے مطابق اس ہسپتال میں داخل کچھ بچے گردن توڑ بخار میں بھی مبتلا تھے۔ جون سے ستمبر تک برسات کے موسم میں اس علاقے میں اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سرکاری حکام کے مطابق اس ہسپتال میں گردن توڑ بخار میں مبتلا بچے بڑی تعداد میں موجود تھے۔

 ہسپتال کے ترجمان ستیش چندرا کہتے ہیں کہ گزشتہ دو ماہ میں ہسپتال میں گردن توڑ بخار میں مبتلا 370 بچوں کا علاج کیا گیا ہے لیکن ان  میں سے 129 بچے جانبر نہیں ہو سکے۔