1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو!

9 فروری 2021

جنوری کا آخری ہفتہ، بھارت کے شمال میں بسے اترا کھنڈ کی برفیلی پہاڑیوں کے حصار میں ایک دور دراز کا گاؤں، دنیا جہان کی فکروں سے آزاد ایک معصوم سی بچی مجھے یہ نظم سنا رہی تھی۔

https://p.dw.com/p/3p6BH
Aparna Reddy
تصویر: privat

میں ہاتھرس کی بیٹی بول رہی ہوں۔۔۔۔

 پوجتے ہوں گے اس دیش کے لوگ کنیاؤں کو دیوی کی طرح

لیکن دلت کی بیٹی دیوی نہیں ہوتی

دلت کی بیٹی ہوتی ہے آسان شکار

وہ بات کر رہی تھی گزرے برس ستمبر میں ہوئے اس سانحے کی، جس نے ہندوستان کی روح کو ایک بار پھر جھنجھوڑ دیا تھا۔ سوال بھی کر رہی تھی''آنٹی کیا ہوا تھا اس لڑکی کو؟کس بات پر سب اتنے پریشان ہیں، غصہ ہو جاتے ہیں؟‘‘

14 ستمبر 2020 کی صبح ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ہاتھرس میں ’اعلیٰ ذات‘ کے دو بگڑیل لڑکوں نے اس کی ہم عمر ایک دلت لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور پھر  زبان تک کاٹ دی۔ پولیس اور انتظامیہ کی بے پروائی کے سبب جان توگئی ہی، اس کے اہل خانہ کی غیر موجودگی میں ان کی منظوری لیے بغیر پولیس نے انتہائی تیزی اور پھرتی دکھاتے ہوئے اس کی آخری رسومات بھی ادا کر دیں۔ سب کچھ غیرقانونی، غیر اخلاقی۔

ایسا لگا کہ صدیوں پرانا روایتی، جاگیردارانہ اور آمرانہ ذہنیت کا دور قائم ہے۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بچی کے سوالوں کا جواب دینے سے اس کی حفاظت ہو گی یا پھر اس کے بچپن کو محفوظ رکھنا بہتر ہو گا۔

نومبر 2019 میں بھی وطن سکتے میں تھا۔ حیدرآباد کی ویٹنری ڈاکٹر پرینکا ریڈی کیس کو لے کر۔ 26 سالہ ڈاکٹر ریڈی کو شاہراہ پر درندوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور ثبوت مٹانے کی غرض سے انہیں جلا دیا۔ چار ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور پھر پولیس نے انکاؤنٹر بتا کر انہیں ڈھیر کر دیا تھا۔ اس کارروائی سے خوش عوام نے پولیس پر پھولوں کی بارش بھی کی۔ پرینکا میری رشتہ دار تھی، ہم اس کے گھر گئے۔ وہ لمحہ بڑا ہی کرب ناک تھا۔ اس کے روم میں اچھی کتابیں اور پینٹنگ اس کی ذہانت اور دلچسپی کی گواہی دے رہی تھیں۔ شادی کی تیاری بھی چل رہی تھی۔ اب ادھورے کینوس ماں نے اس کمرے  میں آویزاں کر رکھے تھ، جیسے یہ پرینکا کا میوزیم ہو۔ اس کی چھوٹی بہن ہوائی اڈے میں ملازمہ تھی اور اڑنا چاہتی تھی، اب والدین اس پر پابندیاں لگانے لگے تھے۔

خبروں کی بات کریں تو گاؤں کی اس بچی کے سوالات سے کچھ روز قبل مبمبئی ہائی کورٹ کے ناگپور بینچ کی ایک خاتون جج نے کچھ ایسا کیا تھا، جس سے ہاتھرس کا واقعہ، حیدرآباد کی پرینکا ریڈی اور نربھیا کے سانحے کو سمجھنے کے لیے ایک نئی دشا مل رہی تھی۔

ناگپور کی 16 سالہ بچی کے ساتھ 2016 میں ایک 39 سالہ شخص نے جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کی تھی۔ سیشن کورٹ نے اسے سزا بھی دی لیکن جج پشپا گنیڈیوالہ نے جنوری 2020 میں اس فیصلے کو خارج کر دیا اور ملزم کو رہا کرتے ہوئے کہا، ''کیوں کہ یہاں جبرا جسمانی رشتہ بناتے وقت بچی کے جسم پر کپڑا تھا، یعنی 'اسکین -ٹو اسکین کانٹیکٹ‘ نہیں ہوا تھا، اس لیے اسے 'جنسی حملہ‘' یا 'سیکسول اسلٹ‘ نہیں مانا جاسکتا۔‘‘

جج پشپا نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کوئی مرد کسی نابالغ کے سامنے اپنی زِپ کھولتا ہے تو یہ بھی قابل سزا جرم نہیں ہے۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو اسٹے دے دیا لیکن یہ فیصلہ اور ایسے کئی دیگر فیصلے ہندوستانی بچیوں کو سوال اٹھانے پر مجبور کرنے لگے ہیں۔

ایک اور کیس کا ذکر کرتے ہیں، متھرا کیس۔ نشے میں چور خاکی وردی والوں نے متھرا نام کی ایک نابالغ دلت لڑکی کی عصمت تار تار کر دی۔ گڑھ چرولی، مہاراشٹر، کے دیسائی گنج تھانے کے اندر اور سپریم کورٹ تک نے ان پولیس والوں کو باعزت بری کر دیا۔ کورٹ کو لگا کہ کیوں کہ زبردستی کرنے کا کوئی ثبوت نہیں تھا تو لڑکی کی رضا سے ہی سب کچھ ہوا ہو گا۔ لگتا ہے جیسے ہاتھرس یا ناگپور کی ہی بات ہو رہی ہو لیکن یہ بات ہے 26 مارچ 1972ء کی۔ کیا کچھ بھی نہیں بدلا  50 برسوں میں؟

ہاں!، متھرا کیس ہندوستان میں عورتوں کے حقوق کی لڑائی کے لیے سنگِ میل ثابت ہوا۔ اس کیس اور اس ناانصافی نے بھارت میں جنسی ہراسانی سے متعلق قوانین میں بدلاؤ اور ترمیم کے لیے ایک عوامی تحریک کی بنیاد ڈال دی۔ کم و بیش 10 برسوں کی کاوشوں کے بعد 1983 میں 100 سال سے بھی زیادہ پرانے ریپ یا جنسی زیادتی سے جڑے قوانین کو عورتوں کے حق میں بہتر بنایا گیا۔

ہنوز حقوقِ نسواں اور نصف آبادی کے حق کی اس طویل جدوجہد میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ نوے کی دہائی میں راجستھان کا بھنوری دیوی کیس اور اس کے بعد آئی 'وشاکھا گائیڈلائنس‘، جنہوں نے ملازمت پیشہ خواتین کی بات کی۔ یا پھر دسمبر 2012 کا دل سوز نربھیا معاملہ اور پھر مسلسل احتجاج کے بعد 2013 میں جنسی زیادتی سے جڑے قوانین میں اہم اضافے ہوئے۔ نظریے بدلے، سزا سخت ہوتے ہوئے سزائے موت تک طے کر دی گئی۔

جدید بھارت میں اس مکروہ فعل سے جڑے قوانین بہتر ہوئے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ ایسے واقعات میں کوئی نمایاں کمی نہیں آئی ہے۔ خواتین کے تحفظ کے حوالے سے بیداری پہلے سے زیادہ ہوئی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان مسائل کو سرخیاں کم ہی ملتی ہیں۔

تقسیمِ ہند کے دوران خواتین  سے جنسی زیادتیاں ایک بڑی سچائی تھی۔ محققین کہتے ہیں کہ تقریبا ایک لاکھ خواتین کو اغوا کیا گیا، ان کی عصمتیں لوٹی گئیں۔ ہاتھرس کیس کے بعد 29 ستمبر 2020 کو نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو نے تازہ اعداد و شمار جاری کیے کہ 2018 سے 2019 کے درمیان روزانہ اوسطاﹰ 87 خواتین پر جنسی حملے کیے گئے اور عورتوں سے جڑے جرائم کی شرح میں سات فیصد کا اضافہ ہوا۔

اس دوران ان مجرموں کے لیے سزائیں سخت ہوئیں لیکن ان کیسوں میں سنوائی اور سزا کی شرح میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ نربھیا معاملہ اتنا لمبا چلا کہ پرینکا کے معاملے کی کارروائی  درست لگنے لگی۔ پھر ہاتھرس کا غصہ گنڈیوالہ کے انصاف کی ہیمر کی چوٹ سے پھوٹ پڑا۔ آٹھویں کلاس میں پڑھنے والی 13 سال کی زین سدورتے، جنہیں اس سال نیشنل بریوری ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، سپریم کورٹ  میں عرضی لگائے بیٹھی ہیں کہ گنیڈیوالہ جج بننے کے قابل ہی نہیں ہیں، انہیں برخاست کیا جائے۔

سوچ میں ڈوبی ہوں! کیا ہمارا معاشرہ قدیم ذہنی زنجیروں کی گرہ سے کچھ آزاد سا ہونے لگا ہے؟ کیا سسٹم بدل رہا ہے؟ یا پھر سب مایہ ہے!

منٹو کی کہانی 'کھول دو‘ کا درد آج بھی پوری شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ فکرمند ہوں کہ ہر پل ٹی وی، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور ٹویٹر کے زمانے میں بڑی ہو رہی بچیوں کے ذہن و دل پر ان خبروں کا کیا اثر ہو گا؟ کیا عمر سے پہلے یہ کمسن، نوخیز بڑی ہو رہی ہیں؟ کیا وہ سہم جاتی ہیں؟ شکار ہو جاتی ہیں؟ چپ رہ جاتی ہیں یا لڑتی ہیں؟ یا پھر غصے میں ٹویٹ  پر ٹویٹ کرتی ہیں؟ کیا حالاتِ حاضرہ میں احتجاج کا کوئی اور طریقہ ممکن بھی ہے؟

بہرحال آج کل یہاں آپ چاہے ہزاروں کی تعداد میں سڑک پر اپنا احتجاج درج کرائیں، آپ کی راہوں میں حکومت وقت کی بچھائی ہوئی کیلیں، شاہراہوں پر کھود دی گئیں خندقیں اور آہنی قلعہ بندی آپ کو اپنی حد میں رہنے پر مجبور کر ہی سکتی ہیں۔