1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: انسانوں کی اسمگلنگ کے بارے ميں آگہی کے ليے گيم

عاصم سلیم Chhavi Sachdev
15 جولائی 2018

بھارت ميں جنسی مقاصد کے ليے ہر سال لاکھوں لڑکيوں کی خريد و فروخت ہوتی ہے۔ لينا کيجريوال اس مسئلے پر سے پردہ اٹھانے اور اس کے خلاف اقدامات کے ليے کمپيوٹر گيمز اور فن پاروں کا سہارا لے رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/31TaM
Computerspiel Missing: The Complete Saga
تصویر: Leena Kejriwal

بھارت کے بڑے شہر ہوں يا پھر چھوٹے، کيجريوال کے فن پارے ہر جگہ پائے جاتے ہيں۔ ريلوے اسٹيشنوں، عمارات، اسکولوں کی ديواروں اور ديگر عوامی مقامات پر سياہ رنگ سے بنی ہوئی کم عمر لڑکيوں کی تصاوير جگہ جگہ ديکھی جا سکتی ہيں۔ يہ تصاوير اس حقيقت کی عکاسی کرتی ہيں کہ بھارت ميں ہر آٹھويں منٹ ايک لڑکی کو جبری طور پر جنسی استحصال اور  غلامی کی طرف دھکيل ديا جاتا ہے۔

بھارت ميں انسانوں کی اسمگلنگ کے مسئلے کے حوالے سے آگہی بڑھانے کے ليے کولکتہ کی رہائشی پچاس سالہ فنکارہ اور فوٹوگرافر لينا کيجريوال اپنے فن پاروں، ڈيزائن اور موبائل فون کی ايک گيمنگ ايپليکيشن کا سہارا  لے رہی ہیں۔ اپنی ان کاوشوں کے ذريعے وہ چاہتی ہيں کہ لوگ ايک لمحے کے ليے اپنے موبائل فونز کی اسکرينز سے نگاہ اٹھائيں اور ان گمشدہ لڑکيوں کے بارے ميں بھی سوچيں۔

Bild der Künstlerin Leena Kejriwal zum Projekt "Missing"
تصویر: Leena Kejriwal

بھارتی نيشنل کرائم ريکارڈ بيورو کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2006 سے لے کر سن 2016 کے درميان نو سے بارہ برس کی عمروں کی 1.2 ملين لڑکيوں کو جنسی مقاصد کے ليے جبری طور پر  جسم فروشی کی دلدل ميں دھکيل ديا گيا۔ ان ميں سے کئی کو تو ان کے والدين نے فروخت کيا جبکہ بقيہ کئی گھروں سے بھاگ کر  مجبورا اس کام سے وابستہ ہوئيں اور کچھ کو تو  اغواء کر کے فروخت کر ديا گيا۔ کيجريوال کے سامنے يہ مسئلہ سب سے پہلے قريب پندرہ سال قبل اس وقت آيا جب وہ ’اسپيسز، نو فيسز‘ نامی ايک فوٹو گرافی پراجيکٹ پر کام کر رہی تھيں۔ اس پراجيکٹ ميں وہ کولکتہ کے ’ريڈ لائٹ ڈسٹرکٹ‘ ميں جنسی افعال ميں ملوث عورتوں کی زندگياں عکس بند کرنے کی کوشش کر رہی تھيں۔ کيجريوال نے سن 2012 ميں اس پراجيکٹ کو ’ملٹی ميڈيا‘ فارم ميں دوبارہ ايران اور جرمنی ميں پيش کيا۔ اس سلسلے ميں ايک مصنوعی قحبہ خانہ تعمير کيا گيا، جسے بالکل اسی طرح کی شکل دی گئی، جو ان کی تصاوير ميں عياں تھی۔

اگلے برس وہ امريکی شہر نيو يارک کے ويژوئل آرٹس اسکول ميں تھيں کہ انہيں لڑکيوں کی سياہ تصاوير بنانے کا خيال آيا۔ اس وقت سے ان کی ايسی تصاوير بھارت ميں مختلف عوامی مقامات پر دکھنا شروع ہو گئيں۔ دريں اثناء وہ اپنی اس مہم پر کام کرتی رہيں اور انہوں نے ديگر افراد کی مالی مدد سے ’مسنگ‘ يا لاپتہ نامی ايک ايپليکيشن لانچ کی، جو صارفين کو ’چمپا‘ نام کی ايک لڑکی بن کر اس کی آپ بيتی ديکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ چمپا کو اغواء کر کے بيچ ديا جاتا ہے اور پھر اسے فرار ہونا ہوتا ہے۔ اس گيم کو موبائل فون پر دنيا بھر ميں کہيں بھی کھيلا جا سکتا ہے

Indische Künstlerin Leena Kejriwal
تصویر: Leena Kejriwal

يہ گيم اس حقيقت کے بارے ميں آگہی پھيلاتی  ہے کہ بھارت ميں ہيومن ٹريفکنگ کا شکار  ہونے والی اسّی فيصد لڑکياں جنسی کاروبار ميں دھکيل دی جاتی ہيں۔ لينا کيجريوال نے اسے غير سرکاری تنظيموں اور اسکولوں کے نصاب ميں شامل کيے جانے کے مقصد سے بنوايا ہے۔ يہ کھيل اب تک ستر سے زائد ممالک ميں اب تک پانچ لاکھ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کيا جا چکا ہے۔