1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: آن لائن تعلیم، فسانہ یا کارآمد تجربہ

24 نومبر 2020

جنوبی بھارت میں تلنگانہ صوبے کے دوردراز شاد نگر گاؤں کی ہونہار طالبہ ایشوریا ریڈی نے جب دو سال قبل بورڈ امتحانات میں چورانوے فیصد نمبر حاصل کیے تو اس کے مزدور والد کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔

https://p.dw.com/p/3lkKr
Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
تصویر: Privat

آٹو میکنک شری نواس ریڈی نے آنکھوں میں خواب سجایا ہوا تھا کہ گریجویشن ختم کرتے ہی اس کی بیٹی سول سروسز کا امتحان پاس کر کے اعلیٰ افسر کے عہدے پر فائز ہو جائے گی۔ بجائے اس کو مقامی کالج میں بھرتی کرنے کے، اس نے ایشوریہ کو سینکڑوں میل دور دارالحکومت نئی دہلی کے ایک معروف لیڈی شر ی رام کالج میں داخلہ دلوا دیا۔ مگر نومبر کے پہلے ہفتے میں ہی اس غریب خاندان کے خواب چکنا چور ہو گئے۔

ایشوریہ نے اپنے گھر پر ہی گلے میں پھندا لگا کر خود کشی کر لی کیونکہ سمارٹ فون یا کمپیوٹر کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ آن لائن تعلیم جاری نہیں رکھ پا رہی تھی۔ کورونا وائرس کی وباء پھوٹنے کے بعد لاک ڈاون کے بعد تقریباً سبھی تعلیمی اداروں نے پچھلے چھ ماہ سے آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ہے، جس کے لیے طالب علموں کے پاس سمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کنکشن ہونا لازمی ہے۔

 ان آلات کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہونہار طالب علم تعلیم میں پیچھے رہی تھی، جو اس کو قبول نہیں تھا۔ اس کے والد مشکل سے ہی گھر کا خرچ چلا پا رہے تھے۔ اس نے ایک استعمال شدہ لیپ ٹاپ خریدنے کی کوشش کی تھی مگر گھر کا بجٹ ساتھ نہیں دے رہا تھا۔

 ایشوریہ کی بہن کی پڑھائی بھی چھوٹ چکی تھی کیونکہ خاندان کی مالی حالت دو بیٹیوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کا متحمل نہیں تھی۔ خود کشی کرنے کے قبل اس نے جو خط لکھا اس کے مطابق وہ اپنے والد کو اپنی تعلیمی ضرورتوں کے لیے مزید تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی۔ ایشوریا کی داستان ڈیجیٹل انڈیا کی اصل تصویر ہے، جو دہلی میں تخت پر بیٹھے افراد کی نگاہوں سے آخر کیوں پوشیدہ ہے؟

میرے اپنے گھر پر کام کرنے والی ملازمہ کے دو بچے ہیں۔ گھر کی آمدنی واجبی سی ہونے کے باوجود اس نے اچھی تعلیم کی امید میں ان کا ایک پرائیویٹ انگریزی اسکول میں داخلہ کروایا ہے۔ اچانک لاک ڈاون کی وجہ سے اس کا شوہر راتوں رات بے روزگار ہو گیا۔ اسکول بند ہیں تو کیا ہوا، کتابوں اور فیس کے لیے تو رقم تو بھرنی ہی تھی۔ کسی طرح بندوبست ہوا اور نئی کلاس میں داخلہ ملا۔ اب لاک ڈاون کی وجہ سے پچھلے سات ماہ سے اس کے بچے آن لائن کلاس روم کے ذریعے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

 گھر میں دو بچے ہیں مگر اسمارٹ فون ایک ہی ہے اور دونوں کے کلاس کے اوقات بھی ایک ہی ہیں۔ مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے والدین نے فیصلہ کیا کہ بچے باری باری فون استعمال کر کے کلاس اٹینڈ کیا کریں گے۔ یعنی ایک دن ایک بچہ تعلیم حاصل کرتا ہے، دوسرا چھٹی کرتا ہے۔ اب چھٹی کے دن کا لیکچر اور ہوم ورک اس بچے کے نصیب میں نہیں ہوتا ہے۔

میں کئی خاندانوں کو جانتی ہوں، جنہوں نے آن لائن تعلیم جاری رکھنے کے لیے اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ خریدنے کے لیے قرض لینا پڑا یا اپنے اثاثے فروخت کرنا پڑے۔ والدین مجبور ہیں تاکہ ان کے بچے اسکول سے محروم نہ ہوں۔

ایک سال قبل ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ بھارت میں انٹرنیٹ کی سہولیات انچاس فیصد عوام کو حاصل ہیں۔ دیہی علاقوں تو بس پچیس فیصد عوام کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔

 ہاں شہری علاقوں میں یہ شرح اٹھانوے فیصد ہے۔ اب ان پالیسی سازوں کو کون سمجھائے کہ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کو چارج کرنے کے لیے بجلی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔

اب بجلی کا حال یہ ہے کہ پورے ملک میں بس سینتالیس فیصد خوش قسمت خاندانوں کو دن میں بارہ گھنٹے بجلی میسر ہوتی ہے۔ چند برس قبل جب کشمیر میں برف باری کی وجہ سے کئی ہفتوں تک بجلی کی ترسیل بند ہو گئی تھی تو لوگ بس موبائل فون چارج کرنے کے لیے ڈیزل سے چلنے والی جنریٹر دکانوں کے باہر لمبی قطاریں لگائے ہوئے تھے۔ حکومت کے ادارے نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کے مطابق پورے ملک میں بس چوبیس فیصد آبادی کے پاس اسمارٹ فون اور گیارہ فیصد کے پاس کمپیوٹر ہیں۔ ان اعداد و شمار کے ہوتے ہوئے بھی حکومتی اہلکاروں کو احساس نہیں ہوا کہ آخر لوگ آن لائن تعلیم حاصل کرنے کے لیے کہاں سے سمارٹ فون اور انٹرنیٹ بینڈوتھ لائیں گے؟

بھارت ایک ایسا ملک ہے، جہاں والدین کی ایک بڑی تعداد بس اسی وجہ سے بچوں کو اسکول بھیجتی ہے کیونکہ وہاں حکومت کی طرف سے دوپہر کا کھانا مفت ملتا ہے۔ والدین اسی پر خوش ہوتے ہیں کہ کم از کم دن میں ایک وقت بچے کو پیٹ بھر کرکھانا نصیب ہوتا ہے۔ اب ایسے خاندانوں کے پاس اسمارٹ فون ہوں گے اور بچوں کو آن لائن تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت بھی ہوگی، اس کی توقع کرنا ہی عبث ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وباء کے دوران اختیار کی جانے والی فاصلاتی تعلیم کی تکنیک کبھی براہ راست تدریس کا متبادل نہیں ہو سکتی ہے۔ سب سے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ وزارت تعلیم ابھی تک آن لائن تعلیم فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ بھی تشکیل نہیں دے پائی۔

 بچے تعلیم سے زیادہ استاد کے اٹھنے بیٹھنے،بول چال کے طریقہ کار اور کلاس یا اسکول میں آس پاس ہونے والے مشاہدات سے سیکھ کر نتائج اخذ کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا اس میں معاون تو ہو سکتی ہے، متبادل نہیں۔

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔