1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کی اموات میں کمی کی رفتار تسلی بخش نہیں:یونیسیف

17 ستمبر 2010

سن 1990 سے اب تک دنیا بھر میں ہر سال ہونے والی بچوں کی اموات میں ایک تہائی کی کمی ہو چکی ہے۔ تاہم اس عمل میں وہ مطلوبہ تیزی دیکھنے میں نہیں آ رہی جس کے تحت اقوام متحدہ کے اس ہزاریہ ہدف کا حصول سن2015 تک ممکن ہو سکے۔

https://p.dw.com/p/PEcu
چین ملک سے غربت کے خاتمے کی جنگ لڑ رہا ہےتصویر: Kristin Kupfer

آئندہ ہفتے عالمی رہنما اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک ایسی کانفرنس میں حصہ لیں گے، جس کا مقصد ایک دہائی قبل طے کئے گئے ہزاریہ اہداف میں سے دو یعنی ’دنیا سے غربت کے خاتمے‘ اور ’دنیا بھر میں ہونے والی بچوں کی اموات میں کمی‘ کے لئے اب تک کئے گئے اقدامات اور اُن کے نتائج کا جائزہ لینا ہے۔ سن 2000 میں اقوام متحدہ نے جو آٹھ ملینیم اہداف طے کئے تھے، انہیں 2015 تک حاصل کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا، اس عالمی ادارے کے تمام رکن ممالک کی طرف سے۔ ان میں ایک اہم ہدف یعنی دنیا بھر میں ہونے والی بچوں کی اموات میں واضح کمی لانا بھی شامل ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادرے یونیسیف کے مطابق آئندہ پانچ سال میں دنیا بھر میں موت کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد میں مزید دو تہائی کی کمی کے امکانات روشن نظر نہیں آ رہے ہیں۔ یہ انکشاف یونیسیف کی طرف سے لگائے گئے اندازوں پر مشتمل اعداد وشمار سے ہوا ہے، جن کی تفصیلات ابھی حال ہی میں Lancet Medical Journal میں شائع ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات کی تعداد 1990 میں 12.4 ملین تھی، جو 2009 میں کم ہو کر 8.1 ملین ہو چکی تھی۔

Kaiserschnitt, im OP-Saal eines Geburtshauses, Duschanbe, Tadschikistan
نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح بہت سے معاشروں کا ایک اہم مسئلہ ہےتصویر: DW

اس طرح اب بھی دنیا کے مختلف ممالک میں پانچ سال سے کم عمر کے 22 ہزار سے زائد بچے روزانہ لقمہء اجل بن رہے ہیں تاہم 1990 کے مقابلے میں یہ تعداد 12 ہزار کم ہے۔ یونیسیف نے کہا ہے کہ اب بھی ہر سال دینا کے مختلف ممالک میں پانچ سال سے کم عمر کے آٹھ ملین بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بچوں کی اموات کی بڑھی ہوئی شرح بھارت، نائجیریا، ڈیمو کریٹک ریپبلک کانگو، چین اور پاکستان میں ریکارڈ کی گئی ہے۔ ماہرین کی تحقیق سے یہ پریشان کن حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ موت کے منہ میں جانے والے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی کُل تعداد کا ایک تہائی حصہ خوراک کی کمی یا بھوک کے سبب دم توڑ دیتا ہے۔

شمالی افریقہ اور مشرقی ایشیا کے خطوں میں کم عمر بچوں کی اموات میں کمی سے متعلق کافی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ شمالی افریقی ممالک میں بچوں کی اموات کی شرح میں میں 68 فیصد جبکہ ایشیائی ملکوں میں 58 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یونیسیف کی اس تازہ ترین رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ دس ترقی پذیر ایسے ممالک، جہاں 1990 میں پانچ سال سے کم عمر کے ہر ایک ہزار بچوں میں سے 40 فیصد موت کے منہ میں چلے جاتے تھے، سن 2009 تک وہاں ایسی ہلاکتوں کی شرح میں 60 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ان ممالک میں بنگلہ دیش، نیپال، اریٹریا، لاؤس، مڈغاسکراور Timor-Leste بھی شامل ہیں۔

Äthiopien unterernährtes Kind mit Mutter
بھوک یا خوراک کی کمی بچوں کی اموات کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ہے:یونیسیفتصویر: picture alliance/dpa

افریقہ میں صحرائے صحارہ کے زیریں علاقوں میں پیدا ہونے والے ہر آٹھ میں سے کم از کم ایک بچہ اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ یہ شرح بہت سے دیگر علاقوں کے مقابلے میں اوسطاً دوگنا بنتی ہے۔ دوسری طرف ایسے ترقی پذیرمعاشروںمیں، جہاں عمومی طور پر لوگوں کی تنخواہیں زیادہ ہیں، وہاں بچوں کی اموات کی شرح تقریباً 20 فیصد کم رہی ہے۔

جنوبی ایشیا میں ہر 14 میں سے کم از کم ایک بچہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال کی اس رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک میں کم عمر بچوں کی ہلاکتوں کی کُل تعداد میں سے نصف کا تعلق نو زائیدگی کے مرحلے میں ہونے والی اموات سے ہوتا ہے۔ یعنی زیادہ تر بچے 28 دن یا اس سے بھی کم عمر کے ہوتے ہیں، جب اُن کی اموات واقع ہوتی ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں