1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بين الاقوامی برادری افغان بحران کو مل کر حل کرے، پاکستان

17 اگست 2021

پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے موجودہ بحران کے حل کے لیے وہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرے گا اور اس ضمن ميں کيے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کو يقينی بنايا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/3z4E8
Pakistan Chaman | Grenze zu Afghanistan: Grenzkontrollen
تصویر: Jafar Khan/AP/picture alliance

پاکستان نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بائیڈن انتظامیہ کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کا یہ موقف ایک بار پھر درست ثابت ہوگیا کہ افغانستان میں تصادم کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے پیر کے روز نیو یارک میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں دیرینہ امن، سکیورٹی اور ترقی کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی برادری کو اب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہيے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تازہ ترین پیش رفت نے ایک بار پھر پاکستان کے اس موقف کی تصدیق کر دی کہ افغانستان میں تصادم کا کوئی فوجی حل کبھی نہیں رہا ہے۔

پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ بات چیت کے ذریعے حل نکالنے کا بہترین وقت غالباً اس وقت تھا جب افغانستان میں امریکی اور نیٹو کی افواج اپنی سب سے زیادہ قوت کے ساتھ موجود تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی فوج کے انخلاء کے حوالے سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کی صدر جو بائیڈن کی جانب سے توثیق کرنا ”تصادم کا منطقی نتیجہ تھا۔"

منیر اکرم نے بتایا کہ پشتونوں سمیت مختلف نسلی گروپوں کی نمائندگی کرنے والی افغان سیاسی جماعتوں اور گروپوں کے متعدد رہنما اس وقت پاکستان کے دارالحکومت میں موجود ہیں اور وزیر خارجہ اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتيں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں ایک شمولیتی حکومت کے قیام کے ہدف کے لیے ان کے اور طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

Usbekistan Taschkent | Treffen zwischen Pakistans Präsident Imran Khan und Präsident Ashraf Ghani aus Afghanistan
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان جولائی میں تاشقند میں میٹنگتصویر: ARG

دنیا پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے

افغانستان کی صورت حال پر غور و خوض کے لیے پیر کے روز پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں میٹنگ میں کابینہ کے سینئر اراکین اور مسلح افواج کے سربراہان بھی موجود تھے۔

پاکستانی میڈیا کے مطابق میٹنگ میں پاکستان کی اعلی سیاسی و عسکری قیادت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بطور پڑوسی ملک، افغانستان میں مداخلت نہ کرنے کی روایت برقرار رکھی جائے گی۔

افغانستان میں طالبان کی کامیابیاں، ’کیا قصور پاکستان کا ہے‘

میٹنگ میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے نتیجے میں ملک پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان، افغانستان میں تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی پر مشتمل سیاسی حل کا حامی ہے۔

اجلاس کے شرکاء کو افغانستان کی بدلتی ہوئی صورت حال اور وہاں آنے والی تبدیلیوں کے پاکستان اور خطے پر پڑنے والے ممکنہ اثرات سے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان دہائیوں سے جاری افغان تنازعے کا شکار ہوا ہے اور دنیا کو پاکستان کی چار دہائیوں پر مشتمل قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔

سن 2019 میں اسلام آباد میں پاکستانی وزیر خارجہ کی طالبان رہنماوں کے ساتھ ملاقات
سن 2019 میں اسلام آباد میں پاکستانی وزیر خارجہ کی طالبان رہنماوں کے ساتھ ملاقاتتصویر: picture-alliance/AP Photo/Pakistan Foreign Office

پاکستان عالمی برادری کے ساتھ ہے

دریں اثنا قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان اور اس کی مستقبل کی حکومت کے بارے میں یکطرفہ طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ اسلام آباد عالمی برادری کے فیصلے کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

انہوں نے بتایا کہ جو افغانستان سے نکلنا چاہ رہا ہے پاکستان اسے محفوظ راستہ فراہم کر رہا ہے۔ اب تک صحافی برادری کو 300 ویزے جاری کیے جا چکے ہیں۔ اس پر کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے پاکستان سے اظہار تشکر کیا ہے۔

افغان طالبان کا کابل پر قبضہ: ’پاکستانی طالبان کے حوصلے بلند‘

اس دوران پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اپنے امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے افغانستان کی تیزی سے بدلتی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں جامع سیاسی تصفیے کی اہمیت پر زور دیا۔

جاوید اختر(اے پی کے ساتھ)

طالبان اب بدل گئے ہیں، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ