1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوسنیائی مسلمہ کی زمین پر بنا چرچ گرایا جائے، یورپی عدالت

2 اکتوبر 2019

یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے اپنے ایک فیصلے میں ایک چرچ کو منہدم کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ یہ مقدمہ ایک بوسنیائی مسلم خاتون کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔ یہ کلیسا اسی خاتون کی ملکیت زمین پر بنایا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/3Qdpp
Bosnien und Herzegowina Konjević Polje | Fata Orlovic vor serbeisch orthodoxer Kirche
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Emric

یورپی عدالت برائے انسانی حقوق (ای سی ایچ آر) نے بوسنیائی حکام سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سربیا کی ایک مسلمان شہری کی جائیداد پر بننے آرتھوڈکس کلیسا کو وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ یہ بوسنیائی خاتون شہری 1995ء میں سربرینتسا میں ہونے والے قتل عام میں بچ جانے والے مسلم شہریوں میں سے ایک ہیں۔

یورپی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حکام نے درخواست گزار خاتون کے جائیداد کے حق کی اس طر ح سے خلاف ورزی کی ہے کہ اسے اس کی ملکیت واپس تو کر دی گئی مگر ساتھ ہی چرچ کی عمارت کو وہاں قائم رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔

Bosnien beerdigt 86 Opfer des Krieges von 1992-1995
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Alic

یہ درخواست ایک بوسنیائی مسلمان خاتون  فاتا اورلووچ کے خاندان کے ایسے چودہ افراد کی جانب سے جمع کرائی گئی تھی، جو 1992ء سے 1995ء تک جاری رہنے والی بوسنیائی جنگ کے دوران سربرینتسا میں مسلمانوں کے قتل عام کے دوران اپنا گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔

بہتر سالہ فاتا اورلووچ نے بوسنیئن نیوز کو بتایا کہ وہ اس عدالتی فیصلے پر خوش تو ہیں لیکن فخر محسوس نہیں کر رہیں،''مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہاں کوئی کلیسا بنا ہوا ہے۔ یہ بھی مسجد کی طرح خدا کا گھر ہی ہے۔ میں نے عدالت سے صرف اس وجہ سے رجوع کیا کہ یہ چرچ میری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ زمین میرا حصہ ہے۔‘‘

اورلووچ نے مزید کہا کہ یہ وہ وقت تھا کہ جب وہ جنگ کے بعد اپنے گاؤں واپس لوٹیں، تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے شوہر کو دیگر افراد کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا، ''میری خواہش ہے کہ آج میرا شوہر یہاں میرے ساتھ ہوتا اور دیکھتا کہ انصاف ملنے میں وقت تو لگ سکتا ہے لیکن اسے حاصل کرنا ناممکن بھی نہیں ہے۔‘‘

Massaker von Ahmići
تصویر: Klix.ba

فاتا اورلووچ کے خاندان کے بیس سے زائد افراد ان تقریباً آٹھ ہزار مسلمانوں میں شامل تھے، جنہیں 1995ء میں بوسی سرب دستوں نے سربرینتسا میں قتل کر دیا تھا۔ یہ افراد ایک ایسی جگہ پر موجود تھے، جسے اقوام متحدہ نے محفوظ تو قرار دے رکھا تھا مگر  وہاں حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔

1995ء میں ہی امریکا کے ثالثی میں کیے جانے والے ایک امن معاہدے کی رو سے سربرینتسا کو سربیا کے زیر انتظام جمہوریہ سرپسکا کے حصے کے طور پر ہی رہنے دیا گیا تھا۔ جمہوریہ سرپسکا موجودہ بوسنیائی ریاست کے دو اہم خود مختار علاقوں میں سے ایک ہے۔

بوسنیائی مسلمانوں کا قتل عام، ہالینڈ کا احساس جرم

ع ا / م م