1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی خواتین کی صورت حال

24 مارچ 2008

عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میںخواتین صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں اپنے ہمسایہ ممالک سے آگے ہیں۔

https://p.dw.com/p/DYON
تصویر: AP

بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ تقریباً آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ یعنی کہ انہیں عام ضروریات زندگی بھی میسر نہیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بنگلہ دیش میں وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ تا ہم عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میںخواتین صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اپنے ہمسایہ ممالک سے آگے ہیں۔

عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ Whispers to voices Gender and Social transformation in Bangladesh کے نتائج کے مطابق گزشتہ تیس برسوں کے مقابلے میں بنگلہ دیشی خواتین پہلے سے زیادہ خود اعتماد اور خود مختار ہو چکی ہیں۔ تعلیمی پروگراموں اور فیملی پلاننگ جیسی سکیموں کے آنے اور کاروباری حلقوں تک آسان رسائی خواتین کے حالات کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم تولیدی صحت ابھی بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہ ملتی ہے۔ لیکن ایک بات اس رپورٹ میں واضح طور پر کی گئی ہے اور وہ یہ کہ بنگلہ دیش میں صنف سے متعلقہ سوچ میں ایک مثبت تبدیلی آرہی ہے۔

ورلڈ بینک کی سماجی کاموں کی ایک سینئر رکن Maitreyi Bbordia Das جو عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کی مصنفہ بھی ہیں کا کہنا ہے کہ دس سال پہلے لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں پیچھے تھی اور باقی جنوبی ایشیائی ممالک میں حالات کچھ ایسے تھے ۔ لیکن آج بنگلہ دیش میں لڑکیاں ثانوی تعلیم میں لڑکوں سے کہیں آگے ہیں ۔ شیر خوار بچوں کی اموات میں بھی حیران کن کمی واقع ہوئی ہے اور اب لڑکے اور لڑکیوں کی اموات کا تناسب ایک ہے اور شاید یہ بنگلہ دیش میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلی ہے ۔

پچھلے تیس سالوں میں بنگلہ دیش نے اپنی بڑھتی ہوئی شرح پیدائش پر کامیابی سے قابو پایا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں ایک طریقہ کار کے تحت لڑکیوں کی پیدائش اور ان کی نگہداشت اور تربیت کو بھی بہتر کیا گیا ہے۔ تا ہم ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابھی بھی حاملہ خواتین کی اموات ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور ساتھ ہی حاملہ خواتین کو طبی سہولیات پہچانابھی ۔ جہاں خواتین کے حوالے سے ترقی ہوئی ہے وہی کافی مسائل کا حل تلاش کرنا ابھی باقی ہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ملازمت پیشہ خواتین کی شرح میں بھی دوگنا اضافہ ہوا ہے ۔ زیادہ تر خواتین ملبوسات کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ 26 فی صد خواتین کام کر رہی ہیں لیکن رپورٹ میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ یہ شرح باقی جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے اور بہت سی خواتین کو کام کی جگہ پرمشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ انہی مردوں کے مقابلے میںکم تنخواہ دی جاتی ہے۔

عالمی بینک کی رپورٹ میںMicro Credit یعنی چھوٹے لیول پر لئے جانے والے قرضوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ چھوٹے قرضوں کی سکیم کی شروعات بنگلہ دیش سے ہوئی تھی اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنایا گیا تھاکہ یہ قرضے خواتین کو آسانی سے مل سکیں ۔ تاہم German development institute سے وابستہ ماہر عمرانیات Petra Dannecker کا کہنا ہے کہ خواتین کو دیے جانے والے چھوٹے قرضوں کی سکیم بھی کسی حد تک متنازعہ ہے۔ ان کے بقول اکثر خواتین ایک کے بعد دوسرا قرضہ لیتی ہیں اور وہ اسے کسی تعمیری کام میں استعمال کرنے کی بجائے اپنے خاوند کو دے دیتی ہیں۔ تحقیقاتی مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب ہم Micro Credit کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا یہ قرضے خواتین کے سماجی حالات کو بہتر بنا رہے ہیں کہ نہیں ؟ اور کیا اس سے ان کی گھر میں پوزیشن بہتر ہو رہی ہے؟

بنگلہ دیش میں زیادہ ترقیاتی پروگرام خواتین کی ترقی پر کام کر رہے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وجہ سے
بنگلہ دیش میں صنف سے متعلقہ سوچ اور معاشرتی نظام میں تبدیلی آئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بنگلہ دیش میں خواتین پر تشدد بڑہ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر حملے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے ا سکولوں پر کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کام کی جگہوں پر اب خواتین کی موجودگی سے مردوں اور عورتوں کے مابین کشمکش میں اضافہ ہوا ہے۔

ماہر عمرانیات Petra Dannecker کا کہنا ہے کہ مرد کے روایتی کردار پر بھی سوال اٹھنا شروع ہوئے ہیں ۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بہت سے مرد اسلای تنظیموں کا رخ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سا لوں میں بنگلہ دیش میں اسلامی تنظیموںکی کامیابی کی ایک وجہ شاید یہی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ وہ خواتین کی بڑھتی ہوئی خود مختاری کو اپنی سیاست کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عالمی بینک کی رپورٹ کا لب لباب یہ ہے کہ انہیں صرف خواتین کے ترقیاتی پروگراموں پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے۔ ترقیاتی پروگراموں کا نیا مقصد صنفی برابری اور سماجی سوچ میں تبدیلی لانے کا ہونا چائیے۔ اور خواتین کی ترقی کے لیے مردوںکو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ سماجی تبدیلی کے عمل میں مردوں کو کیسے شریک کیا جائے؟