1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلیک کاؤنٹ کی واپسی

18 اپریل 2022

امریکہ کی دریافت نے یورپ کو نعمتوں سے نوازا، تو  دوسری جانب اس کے مقامی باشندے تباہی اور بربادی کا شکار ہوئے اور جب امریکہ سے غلاموں کو یورپ لایا گیا تو افریقہ پسماندگی کا شکار ہوتا گیا۔

https://p.dw.com/p/49mNI
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

یورپی اقوام نے کریبین جزائر پر قبضہ کیا تو وہاں اسے کھیتی باڑی کے لیے مزدوروں کی ضرورت تھی جس کی وجہ سے افریقہ سے ان غلاموں  کو جہازوں میں لاد کر لایا گیا اور ان سے محنت و مشقت کرائی گئی۔

 ان ہی جزائر میں سے ایک جزیرہ  Saint Domingo  تھا، جہاں فرانس کا قبضہ تھا۔ یہ جزیرہ بڑی مقدار میں شکر اور کافی پیدا کرتا تھا، جس کی کھپت فرانس میں ہوتی تھی۔ یہاں بڑے بڑے کھیت اور فارم ہاؤسز تھے جن کے مالک فرانسیسی تھے جن میں کام کرنے والے افریقہ سے لائے ہوئے غلام تھے۔

یہاں فرانسیسیوں اور افریقیوں کے درمیان آبادی کا تناسب قائم نہیں رہا تھا۔ فرانسیسی کم تعداد میں تھے اور غلاموں کی تعداد زیادہ تھی۔ اس لیے ان سے کام لینے کا ایک ہی طریقہ تھا وہ یہ تھا کہ انہیں سخت سزائیں دی جائیں اور ان کو خوف کی حالت میں رکھا جائے۔

چونکہ زمینوں کے مالکوں کا تعلق فرانسیسی امراء کے طبقے سے تھا اس لیے ان کا فرانسیسی حکومت پر اثر تھا یہاں رہتے ہوئے اکثر امراء نے امریکی عورتوں کو بطور مسٹریس رکھا اور جو اولاد ان سے پیدا ہوئی ان کو بھی اپنی ملکیت سمجھا۔


ڈاکٹر مبارک علی کا یہ بلاگ بھی پڑھیے

بعض حالات میں ضرورت پڑنے پر امراء نے اپنی افریقی اولاد کو منڈی میں فروخت کر کے پیسے بھی حاصل کیے، لیکن ان میں سے کچھ ایسے تھے جنہیں اپنی اولاد سے محبت ہو گئی تھی اس لیے انہوں نے ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی تھی اور اس کے لیے انہیں پیرس بھیج دیا جاتا تھا تاکہ وہاں وہ فرانسیسی کلچر سے واقف ہوں اور اس کو اختیار کرنے میں ان کو دقت پیش نہ آئے۔

 ابتدائی دور میں رنگ کی بنیادپر بہت زیادہ نسلی تعصب نہیں برتا جاتا تھا۔ لوئی XIV کے عہد میں افریقی کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ فرانس میں آکر آباد ہو سکیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نسلی تعصب بھی بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ 1789ء میں فرانس میں انقلاب آیا تو اس نے نہ صرف فرانس بلکہ اس کے مقبوضہ جزائر پر بھی اثر ڈالا۔

جب سینٹ ڈومنگو میں انقلاب کی خبر پہنچی اور انہوں نے آزادی، اخوت اور مساوات کے بارے میں سنا تو 1791ء میں انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ انہیں بھی نہ صرف آزاد کیا جائے بلکہ مساوی درجہ بھی دیا جائے۔ اس پر فرانس کی نیشنل اسمبلی میں بحث ہوئی کہ کیا غلامی کو باقی رکھا جائے یا ختم کیا جائے۔ اس موقع پر سینٹ ڈومنگوکے مالکوں نے غلامی کی حمایت کی لیکن نیشنل اسمبلی نے غلامی کو ختم کیا۔

ڈاکٹر مبارک علی کا یہ بلاگ بھی پڑھیے

یہ اس انقلاب کے زمانے کی ہی بات ہے کہ ایک نوجوان ایکسن ڈیوما Aleyis Duma تھا۔ جس کاباپ ایک فرانسیسی طبقے سے تھا اور سینٹ ڈمنگو میں اس کی افریقی مسٹریس سے یہ لڑکا پیدا ہوا تھا۔ پیرس میں آکر اس نے تعلیم حاصل کی اور پھر فرانسیسی فوج میں ملازم ہو گیا۔

اس کی زندگی پر بلیک کاؤنٹ کے عنوان سے Tom Reiss نے کتاب لکھی ہے۔ الیکس ڈیوما اس لہاظ سے قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا افریقی فرانسیسی جنرل تھا۔ جس نے فرانس کی طرف سے مختلف جنگوں میں حصہ لیا اور فوجی کارنامے سرانجام دیے۔ الیگزینڈر ڈوما اس کا بیٹا تھا جس نے Three Musketeersکے نام سے ناول لکھا جو بہت مقبول ہوا۔

اس نے اپنے باپ کی سوانح پر بھی ایک ناول لکھا جس کا عنوان Lord of Monte cristoتھا۔ الیکس ڈیوما نے نہ صرف فرانس کی جنگوں میں حصہ لیا بلکہ یہ نپولین کے ساتھ مصر کی مہم پر گیا، لیکن جب یہ مصر سے فرانس واپس آرہا تھا تو اس کا جہاز حادثے کا شکار ہوا اور جہاز کے مسافروں نے نیپلز کی حکومت کے ایک جزیرے میں پناہ لی۔ چونکہ نیپلز اور فرانس کے تعلقات کشیدہ تھے اس کے جزیرے کے گورنر نے اسے دو سال تک قید میں رکھا اور اس وقت رہا ہوا جب نپولین نے اٹلی پر حملہ کر کے اپنی حکومت قائم کی۔

جب الیکس ڈیوما  واپس فرانس میں آیا تو سیاسی صورت حال بدل چکی تھی۔ نپولین نے اپنی ڈکٹیٹر شپ قائم کر دی اور سینٹ ڈمنگو کے زمین کے مالکوں کے دباؤ اور اثرورسوخ سے دوبارہ سے غلامی کو قائم کر دیا تھا۔ نپولین خود ذاتی طور پر افریقوں کے سخت خلاف تھا اور اس میں نسلی تعاصب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

جب غلامی کو دوبارہ سے قائم کیا گیا تو سینٹ ڈومنگو میں غلاموں کی زبردست مخالفت ہوئی۔ انہوں نے سفید فام مالکوں کے فارموں پر حملے کیے ان کو جلایا اور ان کے مالکوں کو قتل کیا۔ فرانس نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے کئی قومی مہمات روانہ کیں مگر یہ سب ناکام ہوئیں۔

نپولین نے افریقی غلاموں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ انتہائی تعصب والا تھا، بلیک کاؤنٹ میں مصنف نے الیکس ڈیوما کی ان تمام تکالیف کو بیان کیا ہے جو اس نے ریٹائرمنٹ کے بعد برداشت کیں۔ جب ایک بار کسی نے نپولین سے سفارش کی تو اس نے غصے سے کہا کہ اس کا میرے سامنے نام نہ لو اور اس کے تمام فوجی کارناموں کو نظرانداز کر دیا گیا جو اس نے انقلابی حکومت کے لیے کی تھیں۔

ڈاکٹر مبارک علی کا یہ بلاگ بھی پڑھیے

وہ ایک انتہائی ذہین بہادر اور فوجی علوم کا ماہر تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے خاص طور سے اس بات کی اجازت لی کہ اسے پیرس میں اس کے اپارٹمنٹ میں رہنے دیا جائے، اگرچہ حکومت میں اس کے پرانے فوجی دوست تھے لیکن نہ تو اس کی تنخواہ کے بقایا جات دیے گئے اور نہ ہی اس کی پنشن اس کو ملی۔ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کو یاد نہیں رکھا گیا۔

اس کے بیٹے الیگزنڈر ڈیوما نے اپنے باپ کی یاد زندہ رکھنے کے لیے ناول بھی لکھا اور مضامین بھی حال ہی میں جب اس کے مداحوں نے اس کا مجسمہ بنا کر نقاب کشائی کی رسم کا انتظام کیا تو اس میں کوئی حکومت کا وزیر یا عہدیدار شریک نہیں ہوا۔

تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ ظالم اور تعصب کو تو عظیم بنا کر پیش کیا جاتا ہے مگر جو مجبور اور کمزور ہوتے ہیں ان کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ نپولین کا مقبرہ اس کے بھتیجے لوئی نپولین نے تعمیر کروا کر اس کا تابوت سینٹ ہیلینا سے واپس منگوا کر بڑی شان سے اسے یہاں دفن کیا۔ لیکن فرانس کی تاریخ میں الیکس ڈیوما کے فوجی کارناموں کو بھلا کر اس سے بھی بھلا دیا۔

بلیک کاونٹ میں اس کی زندگی کے حالات اور اس کی فوجی ملازمت کے بارے میں تفصیل سے بیان کر کے اسے فرانس کی اِنقلابی تاریخ میں ایک باوقار مقام دینے کی کوشش کی ہے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔