1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

بلیک سپاٹکس اورسینٹ ڈومینگو کا آزادی پسند سیاہ فام باغی

23 جنوری 2022

سینٹ ڈومینگو کا آزادی پسند سیاہ فام باغی تُساں لوویرچوغ جس نے آزادی کا چراغ جلایا بھی اور پھر اس کی حفاظت بھی کی۔ ڈاکٹر مبارک علی کا بلاگ

https://p.dw.com/p/45uNN
Mubarak Ali
تصویر: privat

تاریخ میں بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ذہانت اور لیاقت سے حالات کو بدل دیتے ہیں۔ تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ جن افراد نے بغاوت کر کے آزادی حاصل کی جب انہی کے خلاف کوئی دوسری قوم آزادی چاہتی ہے تو انہیں باغی اور غدار کہا جاتا ہے۔ Saint Domingo فرانس کی کالونی تھا، لیکن اس کے دوسرے حصوں پر برطانیہ اور اسپین بھی قابض تھے۔ یہ وہ جزیرہ تھا، جہاں سب سے پہلے 1492ء میں کولمبس پہنچا تھا اور اسے اسپونولا Ispanola کا نام دیا تھا۔ اس کی سرزمین بڑی زرخیز تھی اس لیے کافی اور شکر اس کی اہم پیداوار تھی۔ بڑے کھیت سفید فام لوگوں کے پاس تھے جب کہ افریقی غلاموں کو یہاں لاکر ان سے کاشت کرائی جاتی تھی، چونکہ یہ افریقی غلام افریقہ کے مختلف علاقوں سے آئے تھے اس لیے یہاں کئی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ غلاموں کو قابو میں رکھنے کے لیے سخت سزاؤں کا رواج تھا اس لیے غلاموں کی بغاوتیں ہوتی رہتی تھی، جنہیں کچل دیا جاتا تھا۔

جب فرانس میں انقلاب آیا اور اس میں آزادی، مساوات اور اخوت کا نعرہ لگایا گیا تو ان نعروں سے Saint Domingo کے افریقی غلام سخت متاثر ہوئے اور 1791ء میں انہوں نے بغاوت کر کے آزادی کا مطالبہ کیا۔

اب تک تاریخ میں ورکنگ کلاس کو سیاسی طور پر باشعور سمجھا جاتا ہے اور انہیں انقلاب کا ہراول دستہ کہتے ہیں، لیکن غلاموں کی بغاوت ہمیشہ ناکام رہی۔ کیونکہ نہ تو یہ سیاسی طور پر باشعور ہوتے تھے اور نہ ہی ان کی فوجی تربیت ہوتی تھی کہ یہ تربیت یافتہ فوج سے مقابلہ کر سکے، لیکن سینٹ ڈومینگو کے افریقی غلاموں نے اس تاثر کو زائل کر دیا۔ انہوں نے سیاسی طور پر نہ صرف سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا بلکہ فرانس کی فوج سے مقابلہ کر کے اپنی فوجی برتری کو تسلیم کرایا۔ ان کا رہنما بھی ایک غلام ہی تھا۔ Toussaint Louverture جو ایک سفید فام کے پاس بطور کوچ مین کام کرتا تھا۔ وہ زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا۔ اس کی فرانسیسی بھی ٹوٹی پھوٹی تھی۔ لیکن جب اس نے انقلاب کی قیادت سنبھالی تو اس کی شخصیت میں وہ خوبیاں آگئیں جو کسی دور رس سیاست دان، ماہر جنرل اور ذہین منتظم میں ہوتی ہیں۔

Toussaint کے کارناموں کو اگرچہ فرانس کی تاریخ میں تو بھلا دیا گیا تھا اور امریکا کے صدر Thomas Jafferson نے اسے آدم خور کہا تھا۔ نیپولین بھی جو افریقیوں سے نفرت کرتا تھا اس کی تباہی کا باعث بنا۔ امریکا اور یورپ کی سفید فام اقوام جو افریقی غلاموں پر اپنی ملکیت رکھتی تھیں Toussaint کی بغاوت اور انقلاب ان کے لیے خطرے کا باعث تھا۔ دو مورخوں نے خاص طور سے Tonssaint کی شخصیت کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان میں سے ایک C.L.R.James تھے جس کی کتاب Black Jacolin ہے لیکن جب وقت گزرنے کے ساتھ مزید تاریخی دستاویزات سامنے آئیں تو "Sudhir Hazareesingh" 1920ء میں Black Spartacus (بلیک سپاٹکس) کے نام سے اس پر تفصیلی کتاب لکھی۔ اس سلسلے میں میرا مضمون ''تاریخ کے نشیب و فراز‘‘ میں افریقی غلاموں کی کامیاب بغاوت دیکھیے۔

Hazareesingh نے Tonssaint کی شخصیت کے جن پہلوؤں کو اُبھارا ہے ان میں سب سے پہلے اس کی خوبی بحیثیت جنرل کی ہے۔ سب سے پہلے اس نے غلامی کی آزادی کا اعلان کیا جس کی توثیق فرانس کی نیشنل اسمبلی نے بھی کی تھی۔ آزادی کے جذبے کو اُبھار کر اس نے فوج کی سخت تربیت کی۔ وہ سخت ڈسپلن کا حامی تھا۔ وہ گھوڑے پر سوار تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا تھا۔ فوجیوں کے کھانے اور ان کی یونیفارم کا انتظام کرتا تھا۔ وہ خود بہت کم سوتا تھا اور اس کے کھانے کی مقدار بھی کم تھی۔ وہ فوجیوں سے بہت محبت کرتا تھا اور خود کو ان کا باپ سمجھتا تھا۔ دشمنوں پر فتح کے بعد ان سے انتقام نہیں لیتا تھا۔ مذہبی طور پر وہ کیتھولک فرقے کا حامی تھا اور چرچ میں جاکر عبادت کرتا تھا۔ وہ فرانس کی حکومت سے خط و کتابت میں مصروف رہتا تھا اور اپنے موقف کی وضاحت کرتا تھا۔

وہ ایک ساتھ پانچ منشیوں کو خطوط لکھواتا پھر وہ فرانسیسی زبان کی اصلاح ہوتی تھی اور یہ خطوط فرانس کی حکومت کو بھیجے جاتے تھے۔ اس کا موقف یہ تھا کہ وہ آزادی چاہتے ہیں، لیکن فرانس سے اپنے تعلقات بھی قائم رکھنا چاہتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ نیٹ ڈومینگو کی آبادی کے لیے تعلیم، تجارت اور انتظامی امور کے لیے اسے فرانسیسیوں کی مدد چاہئے تھی کیونکہ جزیرے میں ان کی ضرورت تھی۔ جب سیاسی طور پر وہ مستحکم ہو گیا تو 1801ء میں اس نے جزیرے کے لیے ایک نیا دستور تشکیل دیا۔ اس میں اس کی حیثیت گورنر کی تھی جو تاحیات تھا۔ اگرچہ اس کے ساتھیوں نے بھی اعتراض کیا مگر اس کا اصرار یہ تھا کہ وہ ایک تسلسل کے ساتھ انتظامات کو منظم کر سکے گا۔ چنانچہ اس نے اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر شہر میں میونسپل کمیٹیاں بنائی گئیں۔ جن کا کام یہ تھا کہ شہر میں میں صفائی رکھیں کی بچوں کی تعلیم کے لیے اسکول قائم کئے گئے اور بیماریوں کے لیے ہسپتالوں کا قیام عمل میں آیا۔ اس نے خاص طور سے زرعی ترقی پر زور دیا اور اپنے لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ محنت کے ذریعے ہی وہ اپنی آزادی کو برقرار رکھ سکیں گے۔ خاندانی معاملات میں بھی اس نے اصلاحات کیں۔ بنیادی طور پر وہ طلاق کے خلاف تھا، لیکن اگر میاں بیوی میں زیادہ ناچاقی ہو تو معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ ان اصلاحات نے Saing Domingo کی سیاسی و سماجی حالت کو بدل کر رکھ دیا۔

فرانس میں اس وقت تبدیلی آئی جب نپولین 1799ء میں فوج کی مدد سے اقتدار میں آیا اور اپنے آپ کو First Consul کا عہدہ دیا۔ اول اس نے غلامی کو دوبارہ سے رائج کر دیا اور وہ کسی بھی صورت میں سینٹ ڈومینگو کی آزادی نہیں چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک بڑی فوجی مہم بغاوت کو کچلنے کے لیے روانہ کی۔ Toussaint اس کے لیے تیار تھا اس نے سخت مقابلہ کیا جس کی وجہ سے فرانس اس سے صلح کے لیے امادہ ہو گئے۔ صلح کی بات چیت کے بعد جب Tonssaint واپس اپنے فارم پر گیا تو فرانسیسی فوجیوں نے اچانک حملے کر کے گرفتار کر لیا اور جہاز میں بیٹھا کر فرانس روانہ کر دیا۔ جاتے وقت اس نے ایک جملہ کہا کہ تم درخت کو کاٹ رہے ہو مگر اس کی جڑیں زمین میں ہیں۔ فرانس میں اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا اور نہ ہی نیپولین اس سے ملا اسے ایک سرد مقام پر جیل میں رکھا گیا جہاں اس کے استعمال کی اشیاء بھی اس سے لے لی گئی۔ سردی کی وجہ سے نمونیے میں اس کی وفات ہوئی۔

Teussaint کی شخصیت نے جو ورثہ چھوڑا اسے تاریخ نے محفوظ کر لیا ہے۔ اس کی موت کے بعد شخصیت خاص طور سے فرانس افریقی غلاموں کے لیے ایک ماڈل بن گئی۔ Carrebean جزائر میں غلاموں میں آزادی کا جذبہ پیدا ہوا۔ امریکا کے سفید فام مالکان بھی اس کی بغاوت سے ڈر گئے۔ کیوبا میں جہاں انقلاب آیا وہاں بھی Toussaint کی شخصیت بطور انقلابی ہیرو اُبھری۔ کمیونسٹ پارٹیوں نے بھی Tousaint کی انقلابی شخصیت کو ایک ماڈل بنایا۔

فاتح جتنی بھی چاہے کوشش کریں کہ اپنے مخالف انقلابیوں کی تاریخ کو گم کر دیں، مگر یہ تاریخ کم نہیں ہوتی ہے مگر یہ اُبھر کر سامنے آتی ہے جس کی وجہ سے فاتح شکست کھا جاتا ہے اور مفتوح فاتح بن جاتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔