1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان کا پراسرار ’شہر روغاں‘ یا گوندرانی کی غاریں

17 اکتوبر 2021

بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں غاروں کی پر اسرار بستی ایک عرصے سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ شہر روغاں یا گوندرانی کی غاروں کے نام سے مشہور اس بستی کے متعلق مقامی افراد میں طرح طرح کی مافوق الفطرت کہانیاں مشہور ہیں۔

https://p.dw.com/p/41eyN
Pakistan | Caves city in Gondrani Balochistan
تصویر: Saadeqa Khan

غاروں کا یہ پر اسرار شہر ایران کے تاریخی شہر کندوان اور کپا دوکیا (ترکی ) سے مشابہہ ہے مگر ان دونوں شہروں کے بر عکس یہ پورا علاقہ غیر آباد ہے اور غاروں کے اندر بھی چمگادڑوں کے بسیروں کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔ بلند پہاڑوں میں گری یہ بستی کسی ہالی ووڈ کی فلم کا منظر جیسی ہے۔

بلوچستان کے پر فضا مقام مولا چٹوک میں گزاری تاروں بھری رات کا حال

شہر روغاں تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے؟

یہ کوئٹہ سے چھ سو دو کلو میٹر کی مسافت پر ہے جب کہ کراچی سے لسبیلا تک کا فاصلہ 218 کلومیٹر ہے۔ دریائے کرد کے ساتھ ساتھ تین میل کا سفر اور کچھ راستہ پیدل طے کر کے با آسانی گوندرانی کی غاروں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ راستے میں سب سے پہلے مائی گوندرانی کا مزار آتا ہے انہی کے نام کی مناسبت سے اس جگہ کا نام "گوندرانی " رکھا گیا ہے۔

Pakistan | Caves city in Gondrani Balochistan
غاروں کا حامل گوندرانی کا یہ علاقہ کوئٹہ سے چھ سو دو کلو میٹر کی مسافت پر ہےتصویر: Saadeqa Khan

لسبیلہ کے رہائشی خلیل رونجھا نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ علاقے کے بزرگ افراد مائی گوندرانی کے متعلق بہت سی پر اسرار کہانیاں سناتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی دور میں ان غاروں میں بھوت پریت اور شیطانی قوتوں کا بسیرا تھا۔ مائی گوندرانی نے ان قوتوں سے لڑ کر علاقے کو ان شیطانی قوتوں سے آزاد کروایا۔ اسے لئے آج بھی بڑی تعداد میں عقیدت مند ان کے مزار پر آتے ہیں۔

بلوچستان کی ساحلی پٹی پر مرجان کی چٹانیں

گوندرانی کے غاروں کی تاریخ کتنی قدیم ہے؟

اگرچہ بلوچستان میں مکران کے ساحل سے سبی اور اس سے آگے ژوب تک تقریبا تمام علاقے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں مگر ان پر ماہرین آثار قدیمہ نے بہت ہی کم تحقیق کی ہے۔

یہ تاریخی جگہ برٹش انڈین نیوی کے کمانڈر ٹی جی کارلس نے سن 1883 میں دریافت کی۔ مگر کارلس نے بھی محض سرسری معلومات فراہم کیں۔

Pakistan | Caves city in Gondrani Balochistan
راستے میں سب سے پہلے مائی گوندرانی کا مزار آتا ہے انہی کے نام کی مناسبت سے اس جگہ کو "گوندرانی‘‘ سے یاد کیا جاتا ہےتصویر: Saadeqa Khan

اس حوالے سے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے محقق وحید رزاق نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان غاروں کی تاریخ پر اب تک کوئی بھی تحقیق نہیں کی گئی بلکہ لسبیلہ کے پورے علاقے میں انتہائی نادر آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں کیونکہ کسی دور میں یہ علاقہ وسط ایشیاء کے اہم تجارتی راستوں میں شمار کیا جاتا تھا جو آگے سونمیانی کی بندرگاہ پر ختم ہوتا تھا۔ رزاق کہتے ہیں کہ تحقیق نہ ہونے کے باعث وثوق سے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ یہ غار کتنے قدیم ہیں۔

غاروں کی خصوصیات کیا ہیں؟

پہلی دفعہ جب سیاح اس جگہ کا رخ کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے غاروں پر مشتمل ایک مکمل آبادی کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں مگر یہ پورا علاقہ آبادی نہ ہونے کے باعث انتہائی سنسان اور پر اسرار ہے۔ غاروں کے اندر تقریبا 51 مربع فٹ پر کمرے بنائے گئے جن کے باقاعدہ دروازے تھے اور ساتھ برآمدوں کے آثار بھی موجود ہیں۔ کمروں کے اندر بھی پارٹیشن ہیں جو غالبا کچن یا باتھ روم کے طور پر استعمال کئے جاتے تھے۔

بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے بگڑتی ہوئی صورتحال

بہت سے غار سرنگوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں جو بڑے خاندانوں کی رہائش کو ظاہر کرتے ہیں۔ جن چٹانوں میں یہ غار بنائے گئے ہیں ارضیاتی ماہرین کے مطابق وہ گارے نما مٹی، مختلف سائز کے گول پتھروں اور نمکیات کا مجموعہ ہیں۔ مگر ان پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

Pakistan | Caves city in Gondrani Balochistan
بلند پہاڑوں میں گری غاروں کی یہ بستی کسی ہالی ووڈ کی فلم کے حسین منظر جیسی ہےتصویر: Saadeqa Khan

لسبیلہ کے رہائشی خلیل رونجھا نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے کہا کہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ تاریخی اہمیت کا حامل یہ پورا علاقہ زبوں حالی کا شکار ہے، یہاں تک کہ مقام اور راستے کی نشاندہی کے لئے کوئی بورڈ تک نہیں لگایا گیا نہ ہی سیاحوں کی رہائش کا کوئی بندوبست کیا گیا ہے۔

غاروں کے اندر بنے کمرے انتہائی خراب حالت میں ہیں۔ اگران کی مرمت کرنے کے ساتھ ساتھ سیاحت کی مناسب سہولیات فراہم کر دی جائیں تو یہ علاقہ بین الااقوامی شہرت کا حامل بن سکتا ہے۔