1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برکینا فاسو میں فوجی بغاوت: عبوری صدر اور وزیر اعظم گرفتار

مقبول ملک17 ستمبر 2015

مغربی افریقی ملک برکینا فاسو میں جمہوریت کی بحالی کے لیے مجوزہ قومی الیکشن سے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل ملکی فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے اور عبوری صدر، وزیر اعظم اور چند وزراء اس وقت فوج کی تحویل میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GXvl
دارالحکومت وُوآگاڈُوگُو میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے ریپبلکن گارڈز کے خلاف احتجاج کرتے عام شہریتصویر: Reuters/J. Penney

برکینا فاسو کے دارالحکومت وُوآگاڈُوگُو سے جمعرات سترہ ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ملکی فوج نے تصدیق کر دی ہے کہ اس نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے عبوری صدر میشل کافانڈو کو ان کے اختیارات سے محروم کر دیا ہے جبکہ ملکی حکومت بھی تحلیل کر دی گئی ہے۔

اس وقت معزول وزیر اعظم یاکُوبا آئزک ذِیڈا اور ان کی جبری طور پر تحلیل کر دی گئی حکومت میں شامل کم از کم دو وزراء بھی فوج کی تحویل میں ہیں۔ مغربی افریقہ کی یہ ریاست بدھ کے روز اس وقت اچانک ایک نئے انتشار اور بے یقینی کا شکار ہو گئی تھی، جب ریپبلکن گارڈز کہلانے والے فوجی دستوں نے، جو طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والے سابق صدر بلیز کومپااورے کی حکومت میں اہم کردار ادا کرتے رہے تھے، اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔

روئٹرز کے مطابق یہی بہت طاقت ور صدارتی محافظ دستےگزشتہ برس اکتوبر میں اس وقت سے ملکی سیاست میں بار بار مداخلت کرتے رہے تھے، جب وسیع تر عوامی احتجاج اور مظاہروں کے بعد بلیز کومپااورے کو اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا تھا۔

اس فوجی بغاوت کے بعد برکینا فاسو کے سرکاری ٹیلی وژن RTB سے اپنے ایک نشریاتی پیغام میں ایک اعلٰی فوجی اہلکار نے کہا، ’’قومی کونسل برائے جمہوریت کی شکل میں جمع محب وطن قوتوں نے آج یہ فیصلہ کیا کہ اس عبوری حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے جو اپنے راستے سے ہٹ چکی تھی۔‘‘

اس فوجی اہلکار نے مزید کہا، ’’یہ عبوری انتظامیہ بتدریج اپنے اس مقصد سے دور ہٹتی چلی گئی تھی، جس کے تحت ملک میں نئے سرے سے جمہوریت کی بنیاد رکھی جانا تھی۔ اس عمل کے دوران انتخابی قوانین میں ترامیم کے ذریعے کامپااورے کے حامیوں کا راستہ روک کر انہیں گیارہ اکتوبر کے مجوزہ عام انتخابات میں امیدواری سے روک دیا تھا اور یہ اقدام عام شہریوں میں تقسیم اور بے دلی کی وجہ بنا تھا۔‘‘

Burkina Faso Präsident Michel Kafando und Oberstleutnant Isaac Zida
عبوری صدر کافانڈو، دائیں، اور فوج کے کرنل آئزک ذِیڈا جو ریپبلکن گارڈز کی بغاوت کے وقت سول رہنما کے طور پر ملکی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

اس فوجی بغاوت کی اقوام متحدہ، امریکا اور برکینا فاسو کی سابق نوآبادیاتی طاقت فرانس کے علاوہ دیگر کئی ممالک نے بھی مذمت کی ہے۔ فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضے کے بعد اس بارے میں تمام امیدیں دم توڑ گئی ہیں کہ برکینا فاسو میں جلد ہی ایک پرامن جمہوری تبدیلی دیکھنے میں آ سکتی ہے، حالانکہ یہ وہ ملک تھا جسے بلیز کامپااورے کی اقتدار سے بےدخلی کے بعد افریقہ میں عوام کی جمہوری خواہشات پر عملدرآمد کی کوششوں کے حوالے سے مثالی سمجھا جانے لگا تھا۔

برکینا فاسو کے دارالحکومت وُوآگاڈُوگُو میں بدھ کو رات گئے عبوری صدر، وزیر اعظم اور متعد وزراء کے حراست میں لیے جانے کے اعلان کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں عام شہری احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

آج جمعرات کے روز وہاں شہر کے وسط میں آزادی چوک میں جمع اور صدارتی گارڈز کے خلاف احتجاج کرنے والے سینکڑوں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ملکی فوج نے ہوائی فائرنگ بھی کی جبکہ شہر کے مختلف حصوں میں وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دیتی رہیں۔