برلسکونی کے سیاسی زوال کا آغاز!
13 اکتوبر 2011سلویو برلسکونی کے حوالے سے اختیارات کے غلط استعمال، مافیا کے ساتھ روابط اور سیکس سے متعلق متعدد اسکینڈل سامنے آ چکے ہیں۔ انہیں تین مقدمات میں اپنی صفائی پیش کرنا پڑی اور یہ معاملات کئی ماہ تک خبروں کا موضوع بنے رہے اور اب انہیں عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا ہے۔
برلسکونی کے مخالفین ان سے مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کل عدم اعتماد کی تحریک ایوان میں پیش کی جا رہی ہے۔ آج ایوان زیریں میں خطاب کے دوان ان کا کہنا تھا کہ 2013ء کی مقررہ تاریخ سے قبل انتخابات سے اٹلی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اٹلی کو یورو زون کی تیسری بڑی معیشت تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے بجٹ خسارے کو دیکھتے ہوئے ایسے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ شاید روم حکومت کو بھی امدادی پیکج کا سہارا لینا پڑے۔
اٹلی کی قرض لوٹانے کی صلاحیت یا کریڈٹ ریٹنگ پہلے ہی کم کی جا چکی ہے۔ سٹینڈرڈ اینڈ پورز، موڈی اور فچ نامی بین الاقوامی اداروں نے اٹلی کی کریڈٹ ریٹنگ کم کی تھی۔ اس یورپی ملک میں سیاسی عدم استحکام اور طویل المدتی اقتصادی پالیسیوں پر اس کے پڑنے والے اثرات کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کی وجہ بنے۔
اٹلی کے بڑے شہروں میں بھی سپین کی ’Indignants‘ اور امریکہ کی "Occupy Wall Street" نامی تحریکوں کی طرح اطالوی نوجوان صدائے احتجاج بلند رکھے ہوئے ہیں۔ ان مظاہروں کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ ہفتے کو ہزاروں افراد ایک بہت بڑے حکومت مخالف مظاہرے میں حصہ لیں گے۔
بعض سیاسی مبصرین کے مطابق اٹلی کے اس 75 سالہ ارب پتی وزیر اعظم کے زوال کا آغاز ہو چکا ہے۔ 2010ء کے حکومتی اخراجات کی تفصیل سے متعلق بِل کی پارلیمان سے منظوری حاصل نہ کر پانا برلسکونی کی ایک بڑی سیاسی شکست تصور کی جا رہی ہے۔ اس بِل کی منظوری کے بغیر وہ نیا بجٹ منظور نہیں کروا سکتے۔
برلسکونی کا البتہ اپنے حالیہ خطاب میں کہنا تھا، ’’میرے پاس مستحکم اکثریت ہے، میری حکومت کا کوئی دوسرا موزوں متبادل نہیں ہے‘‘۔ برلسکونی کا دعویٰ ہے کہ ان کے مقابلے پر حزب اختلاف منقسم ہے۔
اپوزیشن کی بڑی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ پیئر لوئیجی بیرسانی کے بقول، ’’بیرلسکونی کا خطاب قابل رحم تھا، انہوں نے کوئی نئی بات نہیں کی‘‘۔ اس جماعت کے نائب سربراہ انریکو لیٹا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم برلسکونی نے جذباتی خطاب کیا ہے، جس میں اٹلی کے موجودہ بحران کا کوئی حل پیش نہیں کیا گیا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امجد علی