1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’برفانی انسان‘ دراصل ریچھ کی ایک قسم ہے، تحقیق

شمشیر حیدر Alistair Walsh
29 نومبر 2017

محقیقین نے دنیا بھر کے عجائب گھروں اور نجی افراد کے پاس موجود Yeti یا ’برفانی انسانوں‘ کی باقیات کا جائزہ لینے کے بعد کہا ہے کہ ان میں زیادہ تر محض ریچھ تھے۔

https://p.dw.com/p/2oSmt
Yeti-Zeichnung
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI

بدھ انتیس نومبر کے روز شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ Yeti، جنہیں برفیلے انسان یا پہاڑی انسان بھی کہا جاتا ہے، در حقیقت محض ریچھ تھے۔ سلسلہ کوہ ہمالیہ میں نیپال، بھوٹان اور تبت کے کئی علاقوں کے مکین ’پہاڑی انسانوں‘ کو ایک حقیقت سمجھتے ہیں تاہم سائنسدانوں کے نزدیک ان کی حقیقت محض افسانوی ہے۔

خلائی جہاز تین برس بعد جاگ اٹھا

حال ہی میں سائنسدانوں نے دنیا کے مختلف عجائب گھروں اور نجی ملکیت میں موجود نو ایسے ہی ’برفانی انسانوں‘ کی باقیات کی ہڈیوں، دانتوں، پنجوں اور بالوں کے نمونے حاصل کر کے ان کا مفصل جائزہ لیا۔ اس تحقیق کے نتائج کے مطابق یہ باقیات زیادہ تر ریچھوں کی ایک نسل اور ایک کتے کی ہیں۔

Fotos von Fußabdrücken des Yeti vor Versteigerung 2007
کئی افراد اور گروہ ان افسانوی جانور نما انسانوں کے قدموں کے نشانات دیکھنے کا دعویٰ بھی کر چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

سائنسی تحقیق کرنے والے گروپ کی سربراہ اور یونیورسٹی آف بفیلو کالج آف آرٹس اینڈ سائنس سے وابستہ ایسوسی ایٹ پرفیسر شارلٹ لُنڈکویسٹ کا کہنا تھا، ’’ہماری تحقیق اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ ’برفانی انسان‘ کے اس افسانوی کردار کا حیاتیاتی ماخذ در حقیقت مقامی ریچھوں میں پایا جاتا ہے۔‘‘

ان باقیات کا جائزہ لیے جانے کے بعد بتایا گیا ہے کہ جن باقیات کو ’برفانی یا پہاڑی انسان‘ سے منسوب کیا جا رہا ہے وہ در اصل کالے ایشیائی ریچھ، تبت کے بھورے ریچھ اور ہمالیہ میں پائے جانے والے بھورے ریچھ کی ہیں۔

رائل سوسائٹی جنرل کے ’پروسیڈنگز بی‘ میں شائع ہونے والا یہ تحقیقی مقالہ اب تک اس موضوع پر کی گئی تحقیق میں سب سے جامع ہے جس میں تبت، بھارت اور نیپال سے کالے، بھورے اور برفانی ریچھوں کے ڈی این اے کے نمونے بھی حاصل کیے گئے تھے۔

یٹی یا پہاڑی انسان کو سلسلہ کوہ ہمالیہ کے کئی ممالک کے باسی ایک حقیقت سمجھتے ہیں اور کئی افراد اور گروہ ان افسانوی جانور نما انسانوں کے قدموں کے نشانات دیکھنے کا دعویٰ بھی کر چکے ہیں۔

پروفیسر لُنڈکویسٹ کے مطابق دوران تحقیق اپنی بقا کے خطرے سے دوچار اس جانور کے بارے میں کئی اہم معلومات بھی سامنے آئی ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’تبت کے سطح مرتفع پر پائے جانے والے بھورے ریچھ اور مغربی ہمالیہ کے پہاڑوں میں رہنے والے بھورے ریچھوں کی نسلیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔‘‘

اس مطالعے سے حاصل کردہ نتائج کی بنیاد پر خاتون پروفیسر نے بتایا کہ ریچھوں کی یہ دو مختلف اقسام ساڑھے چھ لاکھ برس قبل گلیشیئر پگھلنے کے عمل کے باعث ایک دوسرے سے جدا ہو گئی تھیں۔

گرین لینڈ کی برف انتہائی تیزی سے پگھلتی ہوئی