1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برسوں پاکستانی جیل میں گزارنے کے بعد بھارتی شہری کی واپسی

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
17 نومبر 2020

بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر کانپور کے رہنے والے 70 سالہ شمش الدین تقریبا 28 برس بعد اپنے اہل خانہ سے مل کر بہت خوش ہیں۔ جاسوسی کے الزام میں انہیں کئی برس کراچی کی جیل میں بھی رہنا پڑا۔

https://p.dw.com/p/3lOge
Pakistan  | Shamshuddin  Indien Reunion Familienzusammenführung  (Mohammad Uzair)
تصویر: Mohammad Uzair

کانپور کے کنگھی محلے میں شمش الدین کے اہل خانہ اور دوست و احباب شدت سے ان کے منتظر تھے جہاں ان کی واپسی کا شاندار استقبال ہوا۔ پولیس حکام نے بھی بجریا تھانے میں ان کی واپسی پر ایک تقریب منعقد کی اور شمش الدین کو سکیورٹی کے انتظامات کے ساتھ ان کے اہل خانہ کے حوالے کیا۔

شمش الدین کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ گھر والوں کے گلے مل کر پہلے وہ خوب روئے اور پھر خوشی کا اظہار کیا۔ مقامی لوگوں نے ان کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے اور محلے والوں نے ان کی واپسی پر انہیں مبارک باد پیش کی۔ اس موقع پر مقامی میڈیا سے بات چیت میں شمش الدین نے کہا کہ ''میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ برسوں بعد اہل خانہ سے ملاقات کر سکا اور اپنے وطن واپس لوٹ سکا۔''

وہ  پاکستان میں  28 برس گزارنے کے بعد اٹاری اور واہگہ کے راستے گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو بھارتی ریاست پنجاب پہنچے تھے۔ لیکن انہیں 14 روز کے لیے قرنطینہ میں رہنا پڑا جس کی وجہ سے وہ 15 نومبر کو اپنے آبائی شہر کانپور پہنچ سکے، جہاں ان کے اہل خانہ شدت سے ان کے منتظر تھے۔

شمش الدین کی اس کہانی کا آغاز سن 1992 میں ہوا تھا جب اپنے بعض رشتے داروں کے مشورے پر 90 دنوں کے لیے پاکستانی ویزے پر کراچی گئے۔ وہ چپل اور جوتے بنانے کے اچھے ماہر ہیں اور کام کرتے کرتے وہیں رہنے لگے۔ اپنے بعض رشتے داروں کے اصرار پر پاکستانی شہریت سے متعلق بعض جعلی دستاویزات بھی حاصل کر لی تھیں۔

Pakistan  | Shamshuddin  Indien Reunion Familienzusammenführung  (Mohammad Uzair)
تصویر: Mohammad Uzair

تقریبا ًبیس برس تک پاکستان میں قیام کے بعد انہیں اپنے اہل خانہ سے ملنے کے لیے بھارت آنے کا خیال آیا اور پھر شمش الدین نے بھارت کے سفر کے لیے 2012 میں اپنے پاکستانی پاسپورٹ کی تجدید کے لیے دارخواست دی جو پرانا ہوچکا تھا۔ اسی کوشش کے دوران وہ اس بار انٹلیجنس حکام کے ہاتھ لگ گئے۔

اس سلسلے میں انہیں 2012 میں گرفتار کیا گیا۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ وہ پاکستان میں گزشتہ 20 برسوں سے غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور پھر  جعلی پاسپورٹ بھی حاصل کر لیا تھا۔ اسی کی بنیاد پر ان پر جاسوسی جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے اور پھر انہیں سزا بھی ہوگی۔

پاکستانی حکام کا موقف تھا کہ شمش الدین غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ عدالت نے انہیں آٹھ برس کی قید کی سزا سنائی تھی جو انہوں نے کراچی کی جیل میں پوری کی اور پھر جیل سے رہا ہونے کے بعد ان کے رشتے داروں نے انہیں بھارت واپس بھیجنے کی  کوششیں شروع کیں۔

’یہ علاقہ کبھی پاکستان کا حصہ تھا‘

بھارتی میڈیا میں ان کے حوالے سے ایسی خبریں شائع ہوئی ہیں کہ پاکستان ایک دشمن ملک ہے جہاں بھارتی شہریوں کو ستایا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ان کے ساتھ بھی زیادتیاں ہوئیں۔ تاہم کانپور میں گھر پہنچنے پر بھارتی میڈیا سے بات چیت میں شمش الدین نے اس کی تردید کی اور کہا کہ جیل میں ان کے ساتھ کوئی نا روا سلوک نہیں ہوا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستا ن کے درمیان سیاسی مسائل ہیں اور دونوں میں یہ چلتا رہتا ہے۔ ''یہاں بھی اور وہاں بھی، دونوں ملک ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ وہ لوگ جو بے گناہ ہوں ان کے ساتھ اس طرح کا رویہ نہ رکھیں تو بہتر ہوگا۔''

جاسوسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ''یہاں پر بھی فوری طور ایجنٹ بتا دیا جاتا ہے اور ایسا ہی پاکستان میں بھی ہے۔ میری تو دونوں حکومتوں سے یہی اپیل ہے کہ بے گناہوں کو نہ یہاں تنگ کیا جائے اور نہ وہاں۔''   

کانپور میں شمش الدین کا تعلق بجریا تھانے سے ہے جہاں پولیس حکام نے ان کے خیر مقدم کے لیے ایک چھوٹا سا پروگرام منعقد کیا تھا۔ پولیس نے انہیں پنجاب سے کانپور لانے میں مدد کی اور بحفاظت گھر بھیجنے سے پہلے تھانے میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ ان کے اہل خانہ نے اس کے لیے حکام کا شکریہ ادا کیا۔

’روزگار نہیں ہوگا تو بھوکے مر جائیں گے‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں