1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحرین میں اپوزیشن کے مرکزی سیکولر گروپ ’وعد‘ پر پابندی

مقبول ملک روئٹرز
1 جون 2017

خلیجی ریاست بحرین کی ایک عدالت نے ملکی اپوزیشن کے سب سے بڑے سیکولر گروپ کو قانوناﹰ ممنوع قرار دے دیا ہے۔ بحرین میں سیاسی جماعتوں کے قیام کی اجازت نہیں ہے اور اب قومی جمہوری ایکشن سوسائٹی پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2dx1R
Proteste gegen die Regierung in Bahrain 3.1.2014
وعد کی کارکن خواتین اپنی تنظیم اور مرکزی شیعہ اپوزیشن گروپ الوفاق کے زیر حراست رہنماؤں کی رہائی کے لیے مظاہرہ کرتے ہوئےتصویر: Reuters

نیوز ایجنسی روئٹرز کی جمعرات یکم  جون کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بحرین کی ایک عدالت نے بدھ اکتیس مئی کے روز اپنے فیصلے میں ملک کی اس سب سے بڑی لادین اپوزیشن تنظیم کو ممنوع قرار دیتے ہوئے اسے تحلیل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

اس تنظیم پر، جس کا نام نیشنل ڈیموکریٹک ایکشن سوسائٹی ہے اور جو عربی زبان میں مختصراﹰ ’وعد‘ کہلاتی ہے، منامہ حکومت کا الزام تھا کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کرتی ہے۔ اس حکومتی الزام کے برعکس انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی ملکی شخصیات اور غیر ملکی گروپوں کا الزام ہے کہ منامہ حکومت کی طرف سے شروع کردہ عدالتی کارروائی کے نتیجے میں عدالت نے وعد کو اس لیے غیر قانونی قرار دے دیا کہ حکومت ملک میں پرامن اختلاف رائے کا اظہار کرنے والی تمام آوازوں کو خاموش کرا دینا چاہتی ہے۔

بحرین: پانچ افراد ہلاک، 286 شیعہ مظاہرین گرفتار

بحرین: مرکزی اپوزیشن گروپ کو تحلیل کرنے کے لیے کارروائی شروع

احتجاج کے باجود بحرین میں تین شیعہ شہریوں کو پھانسی

وعد (Waad) بحرین کی ایک ایسی سیاسی سماجی تنظیم ہے، جو ملک میں انسانی حقوق کے احترام اور سماجی آزادیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس اپوزیشن گروپ کی طرف سے بدھ کی شام ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا گیا کہ مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے اس تنظیم کے تحلیل کیے جانے کا حکم جاری کرتے ہوئے اس کے جملہ اثاثے ضبط کر لیے جانے کا فیصلہ بھی سنایا ہے۔ وعد کے مطابق اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے۔

Bahrain Ibrahim Sharif in Tubli
وعد کے رہنما ابراہیم شریف جو کافی عرصہ جیل میں رہےتصویر: picture alliance/AP Photo

اس اپوزیشن گروپ کے خلاف عدالت میں مقدمہ بحرین کی وزارت انصاف کی طرف سے اس سال مارچ میں دائر کیا گیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ یہ گروپ ’قانون کی حکمرانی کے اصول کا احترام کرنے کے بجائے اس اصول کی شدید خلاف ورزیوں‘ میں ملوث تھا، جس دوران وہ ’دہشت گردی کی حمایت اور تشدد کی تائید‘ کا مرتکب بھی ہوا تھا۔

وعد کے ایک رہنما الموسوی کے مطابق اس عدالتی فیصلے کے بعد بحرین کی پولیس نے دارالحکومت منامہ میں اس تنظیم کے صدر دفاتر کو جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر دی۔

اس فیصلے کے بعد برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم بحرین انسٹیٹیوٹ فار رائٹس اینڈ ڈیموکریسی نے وعد پر پابندی اور اس کے اثاثے ضبط کر لیے جانے کو اس خلیجی عرب ریاست میں اپوزیشن کے خلاف وسیع تر کریک ڈاؤن کا حصہ قرار دیا، جس کے بعد ’اپوزیشن کی پرامن آوازیں زیر زمین چلے جانے پر مجبور‘ ہو جائیں گی۔