1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

باہمت لڑکی کی استحصال کے خلاف جنگ

مقبول ملک4 اگست 2013

ممبئی کے ریڈ لائٹ ایریا میں جوان ہونے والی ایک 18 سالہ بھارتی لڑکی نے غربت اور مسلسل جنسی استحصال کا مقابلہ کرتے ہوئے کبھی بھی ہمت نہ ہاری اور اب وہ وظیفہ حاصل کر کے تعلیم کے لیے امریکا روانہ ہو چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/19JWe
تصویر: Privat

ممبئی سے آج اتوار کو ملنے والی فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس نوجوان بھارتی لڑکی کا نام شویتا کتّی ہے اور وہ جمعرات یکم اگست کو بھارت سے امریکی شہر نیو یارک کے لیے روانہ ہو گئی جہاں وہ لبرل آرٹس کے بارڈ کالج میں تعلیم حاصل کرے گی اور خاص طور پر نفسیات کا مضمون پڑھنا چاہتی ہے۔

لیکن اسکالرشپ پر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شویتا امریکا میں ہی قیام نہیں کرنا چاہتی بلکہ واپس بھارت آ کر ان نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی مدد کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے، جن کا حال خود شویتا کے ماضی کی طرح ابھی بھی ایک لفظ ’جسم فروشی‘ کے گرد گھومتا ہے۔

Indien - Rotlichtviertel Prostitution
شویتا ممبئی کے ایک قحبہ خانے میں پل کر جوان ہوئیتصویر: Getty Images

یہ بھارتی لڑکی ممبئی کے ایک قحبہ خانے میں پل کر جوان ہوئی اور امریکا روانگی سے قبل اس نے اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’یہ (امریکا میں تعلیم حاصل کرنا) میرا بچپن کا خواب تو تھا لیکن میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک دن بالآخر ایسا واقعی ہو جائے گا۔‘

شویتا کتّی اتنی پرعزم ہے کہ اس کے اسی عزم نے اسے اس سال امریکی ہفت روزہ جریدے نیوز ویک کی دنیا بھر سے 25 سب سے متاثر کن خواتین کی فہرست میں جگہ دلا دی۔ اس فہرست میں شامل تمام خواتین 25 برس سے کم عمر کی ہیں۔

Young Women To Watch نامی نیوز ویک کی اسی لسٹ پاکستان میں سوات کی اس نوجوان طالبہ ملالہ یوسفزئی کا نام بھی شامل ہے،جسے طالبان نے سر میں گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا اور جس کے نام پر بعد میں اقوام متحدہ نے ہر سال ملالہ ڈے کے نام سے عالمی دن منائے جانے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔

شویتا کو ممبئی کے کماتھی پورہ نامی بہت بدنام علاقے میں رہتے ہوئے بچپن ہی سے استحصال، جنسی زیادتیوں اور خوف و ہراس کے ماحول کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’آپ کو ہر روز ہی کوئی نہ کوئی کسی عورت کو پیٹتا ہوا نظر آتا تھا۔ پولیس اچانک لیکن کسی بھی وقت آ سکتی تھی اور خواتین جسم فروشی کرتی تھیں۔‘‘

اب نیو یارک پہنچ چکی اس بھارتی لڑکی نے ممبئی سے رخصتی سے قبل انٹرویو کے دوران کہا، ’’مجھے مردوں کے ساتھ شب بسری کے لیے کہا جاتا تھا۔ یہ ایک شرمناک عمل تھا لیکن میرے لیے فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میرے والد کے علاوہ بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی میرے ساتھ زیادتیاں کیں۔ لیکن میری والدہ نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔‘‘ شویتا نے بتایا کہ اس کی والدہ ہمیشہ اسے کہتی تھی، ’’تم سب سے اچھی ہو۔ تم سب کچھ کر سکتی ہو۔‘‘

یہ بھارتی ٹین ایجر لڑکی خود کو ’موٹی کھال والی لڑکی‘ قرار دیتی ہے۔ اسے اپنے سماجی طور پر نچلی ذات کی ہندو لڑکی ہونے اور غریب خاندانی پس منظر کی وجہ سے اسکول میں بھی ’ہر کسی کے ہاتھوں امتیازی رویے‘ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

Indien Prostitution Prostituierte und Kunde
شویتا بھارت آ کر خواتین کی مدد کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہےتصویر: AP

شویتا کے بقول اس کے جسم فروشی کی دلدل سے نکل سکنے کے پیچھے ایک بڑی وجہ اس کی والدہ ہے، جو ایک فیکٹری میں کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اس لڑکی کو اس کے خوابوں کی تعبیر دلانے میں ممبئی کی ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم ’کرانتی‘ یا ’انقلاب‘ نے بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

’کرانتی‘ نامی تنظیم ممبئی کے ریڈ لائٹ ایریا کہلانے والے علاقوں میں استحصال زدہ لڑکیوں کی اس طرح مدد کرتی ہے کہ وہ بعد میں خود بھی سماجی تبدیلی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کی ایک چھوٹی سی تعداد ممبئی کے شمال میں کرانتی کے مہیا کردہ اپارٹمنٹس میں رہتی ہے۔ دو سال قبل شویتا بھی کماتھی پورہ سے ’کرانتی‘ کے انہی اپارٹمنٹس میں منتقل ہو گئی تھی۔

’کرانتی‘ کی مہیا کردہ رہائش گاہ میں رہتے ہوئے ہی شویتا نے اپنے انگریزی زبان کے علم کو بہتر بنایا اور وہیں پر تعلیم کے لیے ایک مضمون کے طور پر اس کی نفسیات میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ شویتا نے کہا، ’’وقت کے ساتھ میں نے کھلے پن کے ساتھ سوچنا سیکھ لیا۔ مجھ میں اپنی ذات اور اپنے پس منظر کے بارے میں ندامت کے بجائے احترام پیدا ہونے لگا۔ میرا خیال ہے کہ لوگوں میں تبدیلی آ سکتی ہے۔‘‘