1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بالوں کے گرنے کا باعث بننے والے جین کی دریافت

4 جون 2009

جرمن شہروں بون اور ڈسلڈورف کے سائنسدانوں نے انسانی بالوں کے گرنے کا باعث بننے والا ایک اہم جین دریافت کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/I3E6
تصویر: AP

ان ماہرین کی طرف سے کی گئی تحقیق کے دوران انسانی جسم کے پانچ لاکھ حصوں کا مشاہدہ کیا گیا جس دوران معلوم ہوا کہ بالوں کے گرنے کے عمل میں ایک خاص جین اہم کردار ادا کرتا ہے اور ایک نارمل انسان کے مقابلے میں یہ جین گنجے پن کے شکار افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

سن 2005 میں انہی سائنسدانوں نے جنیٹکس کے اصول کے تحت کام کرنے والے ایسے انسانی جینز کو بھی دریافت کیا تھا جو باپ اور بیٹے کے بالوں میں یکسانیت کا باعث بنتے ہیں۔

اس تحقیق کے دوران 300 ایسے افراد کا مطالعہ کیا گیا جو بالوں کے گرنے کا شکار ہو رہے تھے۔ ان افراد کے جسموں کے لاکھوں حصوں کے جینز پر تحقیق سے اس جین کی دریافت سامنے آئی۔ یہ جین ان اعضاء میں زیادہ دکھائی دیا جہاں بالوں کے گرنے کا عمل جاری تھا اور اس جین کی زیادتی کے باعث بال تیزی سے گر رہے تھے۔

جرمن ادارہ برائے زندگی اور دماغ سے وابستہ ماہر اور اس تحقیق میں شامل ڈاکٹر آکسیل ہِلمیر کا کہنا ہے کہ انہیں ابتدائی تحقیق سے ہی یہ بات معلوم ہو گئی تھی کہ یہ خاص قسم کا انسانی جین بالوں کے گرنے کا باعث بنتا ہے مگر جسم کے مختلف حصوں پر اس کے اثرات سائنسدانوں کے لئے اپنی نوعیت کا ایک بالکل نیا مشاہدہ تھے۔

01.08.2008 DW-TV Projekt Zukunft Gene 10
جین کی دریافت کی یہ تحقیق بون اور ڈوسلڈوف یونیورسٹیوں کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر کیتصویر: DW-TV

بون یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر فیلِکس بروکشمیڈ کہتے ہیں: ’’اب ہم بالوں کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہونے والے جینز کی تلاش میں ہیں۔ اسی سے ہم جان پائیں گے کہ آیا ہم انسانی بالوں کو گرنے سے روکنے کے طبی علاج کے لئے صحیح راستے پر ہیں۔‘‘ اس تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگر باپ گنجے پن کا شکار ہو تو بیٹے میں اس جین کی موجودگی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

تحقیقی ٹیم کی قیادت بون یونیورسٹی کے شعبہ انسانی جنیٹکس سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر مارکوس نوتھین اور ڈسلڈورف یونیورسٹی کے ڈرماٹولوجی یا جِلدی علوم کے شعبے کے پروفیسر ڈاکٹر رولانڈ کرُوزےکر رہے تھے۔ اس ریسرچ کے دوران جرمنی بھر سے بالوں کے گرنے کا شکار افراد کے خون کے نمونے حاصل کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ تحقیق کے غرض سے آسٹریلیا سے بھی مختلف افراد کے خون کے نمونے حاصل کئے گئے۔ اس کام میں آسٹریلوی ماہرین کی تحقیقی ٹیم نے بھی جرمن سائنسدانوں کا ساتھ دیا۔ آسٹریلوی ریسرچ ٹیم کی قیادت کوئنز لینڈ یونیورسٹی وابستہ معروف ماہر نکولس مارٹن نے کی۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : مقبول ملک