1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’باقی بارڈر بند کرو، مہاجرین دیگر راستوں سے بھی آ سکتے ہیں‘

شمشیر حیدر13 مارچ 2016

آسٹریا کے وزیر خارجہ سباستیان کُرس نے بلقان کی ریاستوں کی جانب سے بارڈر بند کرنے کے بعد باقی یورپی ممالک کی سرحدیں بھی بند کرنے کی تجویز پیش کی ہے تاکہ تارکین وطن کسی اور راستے سے یورپ نہ پہنچ سکیں۔

https://p.dw.com/p/1ICOR
Griechenland Mazedonien Flüchtlinge in Idomeni
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki

آسٹریائی وزیر خارجہ سباستیان کُرس نے جرمن اخبار ’بلڈ ام زونٹاگ‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بلقان کی ریاستوں سے گزر کر مغربی یورپ آنے والے تارکین وطن کے لیے راستے بند کرنے کے بعد بحیرہ روم سے گزر کر اٹلی اور پھر وہاں سے دیگر ممالک پہنچنے والے پناہ گزینوں کو بھی روکنا چاہیے۔

درجنوں پاکستانی تارکین وطن کی یونان سے ترکی ملک بدری

رضاکارانہ طور پر واپس جاؤ، بائیس سو یورو ملیں گے

کُرس کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند مہاجرین اور تارکین وطن پر واضح کر دینا چاہیے کہ ’یورپ آنے کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں۔‘

آسٹریائی وزیر خارجہ نے بلقان کی ریاستوں کی جانب سے تارکین وطن کے لیے سرحدیں بند کرنے کے فیصلے کا بھی دفاع کیا۔ علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں یونان پہنچنے والے ہر تارک وطن کو حکومتی سطح پر منظم طریقے سے مغربی یورپ نہیں لانا چاہیے۔ یقیناﹰ انسانی سطح پر تارکین وطن کی یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی خواہش قابل فہم ہے لیکن اس پالیسی سے یونان کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘

مہاجرین کا بحران مشترکہ یورپی ردعمل کا متقاضی

یورپ آنے والے زیادہ تر تارکین وطن بلقان ریاستوں سے گزر کر ہی جرمنی اور یورپ کے دیگر معاشی طور پر مستحکم ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی غرض سے پہنچ رہے تھے۔ تاہم سرحدوں کی بندش کے بعد ہزاروں تارکین وطن یونان میں محصور ہو چکے ہیں۔ یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر اب بھی ہزاروں پناہ گزین آگے جانے کی امید میں عارضی خیمہ بستیوں میں رہ رہے ہیں۔

جرمنی کی وفاقی چانسلر انگیلا میرکل نے یورپی ممالک کی جانب سے انفرادی طور پر بارڈر بند کرنے کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ میرکل کی کوشش ہے کہ یورپ کی اندرونی سرحدوں کے بجائے بیرونی سرحدوں کو محفوظ بنایا جائے۔

اس ضمن میں کُرس کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کی وجہ سے یورپ آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی آئی ہے اور یورپی ممالک کی اندرونی سرحدیں ’تارکین وطن کا سیلاب ختم ہونے کے بعد دوبارہ کھولی جا سکتی ہیں۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ یونان میں محصور تارکین وطن کی صورت حال ابتر ہے لیکن اگر اس دباؤ میں آ کر ان کے لیے راستے دوبارہ کھول دیے گئے تو دنیا بھر سے مزید پناہ گزین یورپ کی جانب روانہ ہو سکتے ہیں۔

آسٹریائی چانسلر ویرنر فیمان نے بھی جرمنی پر زور دیا ہے کہ برلن حکومت اپنے ملک میں تارکین وطن کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرے۔ فیمان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک میں مہاجرین کی لازمی تقسیم کا منصوبہ اس لیے ناکام ہوا ہے کیوں کہ سب لوگ جرمنی پہنچنا چاہتے ہیں۔

آسٹریائی چانسلر کا کہنا تھا کہ میرکل تارکین وطن کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کر کے ’مہاجرین کی جرمنی کی جانب دوڑ‘ کو ختم کر سکتی ہیں۔

یونان میں پھنسے پاکستانی وطن واپسی کے لیے بیقرار

جرمنی میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید