1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بائیس سالہ جرمن نوجوان کی ہلاکت، شبہ دو افغان مہاجرین پر

9 ستمبر 2018

جرمن پولیس نے ایک بائیس سالہ جرمن شخص کے قتل کے شبے میں دو افغان باشندوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ مہاجرین مخالف جذبات بڑھنے کے خدشات کے پیش نظر سیکسنی اَن ہالٹ صوبے کی حکومت نے شہریوں سے پُر سکون رہنے کی اپیل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/34aBH
Tödlicher Streit in Köthen
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow

مقامی پولیس اور وکلاء نے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ جرمن نوجوان کی ہلاکت ہفتے کو ہوئی۔ بیان کے مطابق قتل کے شبے میں دو افغان مہاجرین کو عارضی طور پر حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے تمام پہلوؤں پر انکوائری کی جائے گی لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ واقعہ کیسے پیش آیا۔

 جرمن نوجوان کی ہلاکت کا یہ واقعہ ملک کے مشرقی شہر کیمنٹس میں ایک جرمن شخص کی دو مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ ہلاکت کے پندرہ روز بعد سامنے آیا ہے۔ ان تارکین وطن کا تعلق شام اور عراق سے بتایا جاتا ہے۔ اس ہلاکت کے رد عمل کے طور پر دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد کی جانب سے کیمنٹس میں پُر تشدد مظاہرے کیے گئے تھے جس سے جرمنی بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔

جرمن شہر کوئتھن میں ہوئے قتل کی اس تازہ واردات کے بعد سیکسنی اَن ہالٹ کے وزیر داخلہ ہولگر شٹالک نیخت نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس المناک موت پر گہرا دکھ ہے اور وہ شہریوں کے تحفظات سے بھی واقف ہیں۔ شٹالک نیخت نے مزید کہا کہ انہوں نے شہریوں سے پر سکون رہنے کی اپیل کی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ کیمنٹز جیسے واقعات اُن کی ریاست میں بھی دہرائے جائیں۔

Demonstration  Pro Chemnitz
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Meyer

جرمن میڈیا کے مطابق یہ واقعہ کوئتھن کے ایک پلے گراؤنڈ میں پیش آیا جہاں تین افغان مہاجرین ایک حاملہ جرمن خاتون سے یہ بحث کر رہے تھے کہ ہونے والے بچے کا باپ کون ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس بحث کے دوران ہی دو جرمن شہری بھی وہاں پہنچے جس سے معاملہ بگڑ گیا۔

یہ درست طور پر معلوم نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا لیکن جرمن روزنامے ’دی ویلٹ اَم زونٹاگ‘ کی رپورٹ کے مطابق بائیس سالہ جرمن نوجوان کی موت دماغ کی اندرونی چوٹ کے باعث واقع ہوئی ہے۔ اندازہ ہے کہ تیسرا افغان باشندہ اس جھگڑے میں ملوث نہیں تھا۔

ڈی پی اے کے مطابق رہائشیوں اور مقامی سیاست دانوں نے جائے وقوعہ پر آج اتوار کے روز پھول رکھے۔

نیوز ایجنسیوں کے مطابق کوئتھن میں اس جرمن نوجوان کی ہلاکت کے بعد دائیں بازو کےنظریات کے حامل گروپوں کی جانب سے میموریل مارچ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ شہریوں سے یہ مطالبہ سوشل میڈیا کے ذریعے کیا گیا ہے۔ دوسری جانب بائیں بازو کے سیاستدان ہینرِیٹے قواڈے نے رائٹ ونگ کی انتہا پسندی کے خلاف ایک مظاہرہ کرنے کو کہا ہے۔ کوئتھن کے میئر بیرنڈ ہاؤشلڈ نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں شہریوں کو احتجاجی ریلیوں میں شرکت نہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ کوئتھن کے باہر سے مشتعل گروپ ان مظاہروں میں شرکت کرنے آ رہے ہیں۔

کیمنِٹس میں چھبیس اگست سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا تھا جب ایک جرمن شہری کو سیاسی پناہ کے دو متلاشیوں نے مبینہ طور پر ہلاک کر دیا تھا۔

جرمن وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر  ملک میں تمام تر سیاسی مسائل کی جڑ مہاجرت کو قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے کیمنٹس مظاہروں کی مذمت بھی نہیں کی تھی جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ دوسری جانب چانسلر انگیلا میرکل نے ان مظاہروں کی بھر پور مذمت کی تھی۔

کیمنٹس کے پُر تشدد مظاہروں کے بعد ملک میں چانسلر میرکل کی مہاجرین کے لیے سن 2015 کی اوپن ڈور پالیسی پر بحث ایک بار پھر گرم ہو گئی ہے۔

ص ح / ع ب / نیوز ایجنسی

اہلیانِ کیمنٹس کی جانب سے نسل پرست مظاہرین کی مذمت