1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اے این پی کی انتخابی ریلی پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 20 ہوگئی

11 جولائی 2018

پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی ریلی پر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر بیس ہو گئی ہے۔ پاکستانی طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/31FNr
Pakistan Anschlag in Peschawar
تصویر: Reuters/F. Aziz

صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت میں منگل کو رات گئے کیے گئے اس بم حملے میں اے این پی کے ایک مقامی رہنما اور انتخابی امیدوار ہارون بلور بھی مارے گئے۔ پولیس کے مطابق اس حملے میں ساٹھ سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں سے پینتیس ابھی تک پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ یہ حملہ پچیس جولائی کے عام انتخابات سے قبل پاکستان میں اب تک کی جانے والی سب سے بڑی دہشت گردانہ کارروائی ہے، جس کی ذمے داری مقامی طالبان عسکریت پسندوں نے قبول کر لی ہے۔

اس پارٹی کو ماضی میں بھی طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کی طرف سے نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ہارون بلور کے والد بشیر بلور بھی اے این پی کے ایک مرکزی رہنما تھے، جو دو ہزار بارہ میں ایسے ہی ایک خود کش حملے میں مارے گئے تھے۔

Pakistan Anschlag in Peschawar
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Ahmad

اس حملے کے ساتھ ہی پاکستان کے کئی دیگر سیاستدانوں کو بھی محتاط رہنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں جبکہ صوبے خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کا ایک جلسہ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ پشاور میں تازہ ترین خود کش بم حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا، جب چند گھنٹے پہلے ہی ملکی فوج کی طرف سے انتخابات سے قبل ممکنہ حملوں کے خطرے سے خبردار کیا گیا تھا۔

Pakistan Anschlag in Peschawar
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Ahmad

مقامی بم ڈسپوزل اسکواڈ کے سربراہ شفقت ملک کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئےکہنا تھا کہ یہ ایک خود کش حملہ تھا، جو ایک سولہ سالہ لڑکے نے کیا۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق حملہ آور لڑکے نے اپنے جسم پر آٹھ کلو گرام دھماکا خیز مواد اور تین کلو گرام بال بیئرنگ باندھے ہوئے تھے۔

ہارون بلور کی ہلاکت پر احتجاج کرتے ہوئے آج بدھ کو پشاور کے وکلاء ہڑتال کر رہے ہیں۔ ہارون بلور ایک بیرسٹر تھے۔ ان کی رہائش گاہ پر تعزیت کرنے کے لیے آنے والوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مقامی تاجروں نے بھی احتجاجاﹰ ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

مقامی پولیس کے مطابق حملے کے وقت جائے وقوعہ پر تقریباﹰ دو سو افراد موجود تھے، جن سے ہارون بلور خطاب کرنا چاہتے تھے۔ دریں اثناء تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے، ’’تحریک طالبان پاکستان کے ایک رکن عبدالکریم نے گزشتہ شب ایک خودکش حملہ کیا، جس کے نتیجے میں اے این پی کا اہم لیڈر ہارون بلور مارا گیا ہے۔‘‘

طالبان کے اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’ہم اے این پی کے خلاف پہلے ہی جنگ کا اعلان کر چکے ہیں اور عوام خود کو ان سے دور رکھیں، ورنہ وہ اپنے نقصان کے خود ذمہ دار ہوں گے۔‘‘

ا ا / م م (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)