1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک ملین پاکستانی آئی ڈی پیز انتہائی ابتر حالات میں

امجد علی17 مارچ 2016

شمال مغربی پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوج کے آپریشنز کے باعث حالیہ برسوں کے دوران کوئی 5.3 ملین پاکستانی شہری بے گھر ہوئے، جن میں سے زیادہ تر واپس لوٹ چکے ہیں لیکن ایک ملین شہری ابھی بھی گھر واپسی کے منتظر ہیں۔

https://p.dw.com/p/1IERP
Pakistan Internally Displaced People in Waziristan
ایک ملین شہری بے گھر شہری، جو کسمپرسی کی حالت میں مہاجر کیمپوں اور مختلف شہروں اور قصبوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جلد از جلد اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیںتصویر: DW/D. Baber

نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق امدادی رقوم کا فقدان، تباہ شُدہ اقتصادی ڈھانچہ اور حملوں کا خوف ان تقریباً ایک ملین شہریوں کی اپنے اپنے گھروں کو واپسی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ اُس کے آپریشنز کے نتیجے میں شدت پسندوں کی آماجگاہ اس علاقے سے زیادہ تر عسکریت پسندوں کو بھاگ نکلنے پر مجبور کیا جا چکا ہے۔ اب فوج شدت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے یہ چاہتی ہے کہ مقامی آبادی واپس اپنے گھروں کو لوٹے اور ایک فعال معاشرہ تشکیل دے۔

فرنٹیئر ریجنز کے وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’ہمارے کندھوں پر اپنے آپ کو، اس ملک کو اور پوری دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔‘‘

وفاق کے زیر انتظام علاقوں (فاٹا) سے نکلنے پر مجبور ہو جانے والے چار ملین سے زائد شہری اپنے اپنے گھروں میں واپس پہنچ چکے ہیں تاہم وہ تقریباً ایک ملین شہری بھی، جو کسمپرسی کی حالت میں مہاجر کیمپوں اور مختلف شہروں اور قصبوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جلد از جلد اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیں۔

پاکستانی حکومت بھی امریکا اور چین جیسے بین الاقوامی ڈونرز کی مدد سے اس سال کے اواخر تک ان تمام افراد کو واپس بھیجنے کا پروگرام بنائے ہوئے ہے تاہم اس سے پہلے حکومت اس پورے علاقے میں، جو انتہائی پسماندہ ہے، بمباری سے تباہ شُدہ سڑکوں، فراہمیٴ آب کے نظاموں، بازاروں، اسکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیرِ نو چاہتی ہے۔ عبدالقادر بلوچ کے مطابق حکومت اس علاقے کو ترقی دینے کے لیے اُسی طرح کا ایک مِنی مارشل پلان چاہتی ہے، جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کے لیے وضع کیا گیا تھا۔

یونائیٹڈ نیشنز ڈیویلپمنٹ پروگرام UNDP کے اسسٹنٹ کنٹری ڈائریکٹر عادل منصور کے خیال میں آئندہ دو برسوں کے دوران اس پورے سرحدی علاقے کی تعمیر نو کے لیے تقریباً 800 ملین ڈالر درکار ہوں گے۔

Pakistan Internally Displaced People in Waziristan
وزیرستان کے علاقے ٹانک میں بے گھر افراد میں خوراک کے پیکٹ تقسیم کیے جا رہے ہیںتصویر: DW/F. Khan

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام WFP کی کنٹری ڈائریکٹر لولا کاسترو کہتی ہیں کہ اُن کے ادارے کو واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے والے شہریوں کو خوراک اور مدد فراہم کرنے کے لیے ڈونرز کی طرف سے جتنی رقم کی ضرورت ہے، اُس میں ابھی بھی پچاس ملین ڈالر کم ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بدقسمتی سے اس نازک مرحلے پر پاکستان کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

پشاور کے قریب ایک چھوٹے سے گھر میں مقیم پچپن سالہ سید حلیم حیدر کہتا ہے کہ اگرچہ پہلے سے واپس لوٹ جانے والوں سے اُسے پتہ چلا ہے کہ وہاں پینے کا پانی اور بجلی کی سہولت نہیں ہے اور وہ بازار بھی تباہ ہو چکا ہے، جہاں اُس کی دوکان ہوا کرتی تھی لیکن اپنے موجودہ ابتر حالات سے وہ اور اُس کے گھر کے چَودہ ارکان اتنے تنگ ہیں کہ وہ جلد از جلد واپس اپنے گھر جانے کو ترجیح دے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید