1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کا ایک اور افغان شہر پر حملہ

1 ستمبر 2019

افغان طالبان نے آج اتوار کے روز ایک اور افغان شہر پر بڑا حملہ کیا ہے۔ طالبان کا دوحہ میں امریکا کے ساتھ امن مذاکراتی عمل جاری ہے مگر گزشتہ دو روز کے دوران ان کی طرف سے یہ دوسرے افغان شہر پر حملہ ہے۔

https://p.dw.com/p/3OpGq
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Rahmat Gul

طالبان کی طرف سے صوبہ بغلان کے دارالحکومت پُل خمری پر یہ حملہ امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کے اس بیان کے کئی گھنٹوں بعد کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے دوحہ مذاکرات کے دوران قندوز میں کیے جانے والے بڑے حملے کے خلاف متنبہ کیا تھا۔ خلیل زاد کے مطابق انہوں نے طالبان سے کہا، ''اس طرح کا تشدد کا سلسلہ رُکنا چاہیے۔‘‘ طالبان نے ہفتہ 31 اگست کو قندوز پر ایک بڑا حملہ کیا تھا۔

خلیل زاد آج اتوار یکم ستمبر کو کابل پہنچے تھے تاکہ افغان حکومت کو اس معاہدے کے بارے میں اعتماد میں لیا جا سکے جس کے بارے میں خلیل زاد اور طالبان دونوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مذاکرات کا تازہ راؤنڈ ختم ہو چکا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق طالبان کی طرف سے قندوز اور پُل خمری پر کیے جانے والے تازہ حملوں کو امریکا کے ساتھ مذاکرات میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ طالبان کے کنٹرول میں اس وقت افغانستان کا نصف کے قریب علاقہ ہے اور سال 2001ء کے بعد سے وہ وہاں مضبوط ترین پوزیشن میں ہیں۔

Zalmay Khalilzad
طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شریک امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ فریقین امن ڈیل کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں۔تصویر: Reuters/O. Sobhani

ناقدین نے متنبہ کیا ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کا ایک اہم نکتہ جنگ بندی بھی ہے، لیکن ممکنہ طور پر اس پر عملدرآمد نہیں ہو گا کیونکہ طالبان محض امریکی افواج کے افغانستان چھوڑنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے انتہائی قریب ہیں، زلمے خلیل زاد

افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شریک امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ فریقین امن ڈیل کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاہدہ طے ہونے سے افغانستان میں پرتشدد حالات میں کمی ہو گی اور تمام افغان دھڑوں کے درمیان بات چیت کے دروازے بھی کھل جائیں گے۔ اس کے بعد ہی افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان بھی براہ راست رابطہ کاری ممکن ہو گی۔ ابھی تک طالبان کابل حکومت کو امریکا کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔

امریکا کو امید ہے کہ اس معاہدے میں طالبان کی طرف سے افغانستان میں حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کے بعد وہاں تعینات امریکی فوجیوں کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہو سکے گی۔

ا ب ا / ع ا (اے پی، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید