1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایڈز :جدید تحقیق اور حقائق

11 فروری 2009

گزشتہ چند برسوں میں ایڈز پر قابو پانے کے حوالے سے پیش رفت ہوئی ہے۔ اب ایک نئی تحقیق کے مطابق دواؤں میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیوں سے حاصل ہونے والے کیمیکلز کو ایچ آئی وی وائرس کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/GCEQ
UCLA ایڈز انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق کھمبی کی جڑ سے حاصل ہونے والے کیمیکل ایچ آئی وی کے وائرس کے اثرات کی رفتار کم کر سکتے ہیں۔تصویر: AP

UCLA ایڈز انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق کھمبی کی جڑ سے حاصل ہونے والے کیمیکل ایچ آئی وی کے وائرس کے اثرات کی رفتار کم کر سکتے ہیں۔ کھبمی کی جڑ کو چینی دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

30 سال قبل انسان ایڈز کی مصیبت سے بے خبر تھا۔ تاہم 1981 میں دُنیا نے جب انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو نچوڑ دینے والی اس مصیبت کو جانا تو اس وقت تک لاکھوں انسان اس جان لیوا وائرس کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔

Deutschland Sport Doping Blutprobe
میں دُنیا نے جب انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو نچوڑ دینے والی اس مصیبت کو جانا تو اس وقت تک لاکھوں انسان اس جان لیوا وائرس کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔تصویر: AP

دُنیا بھر میں ایچ آئی وی ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد تین کروڑ سے زائد ہے جن میں سے ایک کروڑ 54 لاکھ خواتین ہیں جبکہ 15سال سے کم عمر کے 25 لاکھ بچے بھی اس بیماری کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔

افریقی ممالک اس بیماری کے نرغے میں بری طرح پھنسے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ براعظم افریقہ میں تقریبا ﹰ ایک پوری نسل اس بیماری کی نذر ہو چکی ہے جبکہ اس وائرس کے اثرات آئندہ دو نسلوں تک باقی رہیں گے۔

دُنیا بھر میں اس مرض کے باعث ڈھائی کروڑ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ بات اور بھی ہولناک ہے کہ دُنیا میں ہر آٹھ سیکنڈ میں ایک شخص ایڈز کے مرض میں مبتلا ہو رہا ہے۔

عالمی تنظیم یو این ایڈز کے مطابق ایشیا میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد 50 لاکھ ہے جن میں سے تقریبا ﹰ نصف بھارت میں ہیں۔ جہاں اس مرض سے متاثرہ خواتین کی تعداد نو لاکھ بتائی جاتی ہے۔

اُدھر پاکستان میں ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد 96 ہزار تاایک لاکھ 50 ہزار ہے جن میں 27 ہزار خواتین ہیں۔ یہاں اس مرض سے متاثرہ افراد کی زیادہ تعداد ہم جنس پرست مردوں، جسم فروش خواتین اور نشہ کرنے والوں کی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں ایڈز کی مناسب آگاہی نہ ہونا ہی اس مرض کی روک تھام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

دریں اثنا ماہرن کا کہنا ہے کہ ایڈز کی مؤثر ویکسن کے نا ہونے سے اس مرض کے خلاف جنگ کو ناکامی کا سامنا ہے۔ تاہم اس مرض کے خلاف مؤثر علاج کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ 1989ء میں سان فرانسسکو کے سائنس دانوں نے ایچ آئی وی اورایڈز کے خلاف ایک مدافعتی کیمیکل تیار کیا تھا۔ دسمبر 1995ء میں امریکن یونیورسٹی آف میری لینڈ کے سائنسدانوں نے انسانی خلیوں کی مدد سے ایک قدرتی کیمیکل سی ڈی 8 ایس تیارکیا لیکن مکمل طور پر کامیابی نہیں ہو سکی۔