1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی صدر حسن روحانی پہلی بار سرکاری دورے پر عراق میں

11 مارچ 2019

ایرانی صدر روحانی پہلی بار ایک سرکاری دورے پر عراق پہنچ گئے ہیں۔ وہ یہ دورہ ایسے وقت پر کر رہے ہیں، جب بغداد حکومت کو اس بارے میں شدید امریکی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو محدود کر دے۔

https://p.dw.com/p/3EmRC
تصویر: irna

صدر حسن روحانی پیر گیارہ مارچ کو اپنے جس تین روزہ دورے کے آغاز پر آج عراقی دارالحکومت بغداد پہنچے، وہ ایک ایسا دورہ ہے، جس دوران دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تجارتی تعلقات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہے گی۔ سیاسی طور پر اس دورے کا ایک پہلو تہران کی طرف سے امریکا کی ان کوششوں کو ناکام بنانا بھی ہے، جن کے ذریعے وہ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کو کم سے کم کر دینا چاہتا ہے۔

’نیا تاریخی آغاز‘

ایرانی صدر کے اس دورے کو ملکی وزیر خارجہ جواد ظریف نے تہران اور بغداد کے باہمی رواط میں ایک ’نئے تاریخی آغاز‘ کا نام دیا ہے، جس دوران ہونے والے اعلیٰ سطحی مذاکرات میں دونوں مسلم ممالک کی توجہ تجارت اور سرمایہ کاری پر مرکوز رہے گی۔

ایران کے لیے اس دورے کی اہمیت اس وجہ سے بھی بہت زیادہ ہے کہ وہ امریکا کی ان کوششوں کے خلاف اپنی سیاسی اور سفارتی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، جن کا مقصد ایران کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کر دینا ہے۔ صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکی انتظامیہ نہ صرف ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدے سے واشنگٹن کے نکل جانے کا اعلان کر چکی ہے بلکہ امریکا ایران کے ‌خلاف دوبارہ سخت پابندیاں بھی عائد کر چکا ہے۔

Iran Irak Barham Salih und Hassan Rohani
ایرانی صدر حسن روحانی، دائیں، اور عراقی صدر برہم صالح کی گزشتہ برس نومبر میں ایران میں لی گئی ایک تصویرتصویر: picture-alliance/AP Photo/Iranian Presidency Office

عراق میں سیاسی اور عسکری اثر و رسوخ

ایران صدر روحانی کے اس دورے کے ساتھ امریکا سمیت مغربی دنیا کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہے کہ وہ آج بھی عراق میں کافی زیادہ سیاسی اور عسکری اثر و رسوخ کا حامل ہے۔

گزشتہ برس کرسمس کے موقع پر جب امریکی صدر ٹرمپ نے عراق کا صرف چار گھنٹے دورانیے کا ایک دورہ کیا تھا، تو اس دوران وہ عراق میں صرف امریکی فوجیوں سے ملے تھے۔ لیکن اس دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے عراق کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت سے کوئی ملاقات نہیں کی تھی۔

اس کے برعکس ایرانی صدر اب نہ صرف تین روز تک عراق کا دورہ کر رہے ہیں بلکہ اس کے لیے وہ ایک بڑا سیاسی اور تجارتی وفد بھی اپنے ساتھ لے کر بغداد گئے ہیں۔

عراق میں کثیرالجہتی ملاقاتیں

عراق میں اپنے قیام کے دوران صدر روحانی اپنے عراقی ہم منصب برہم صالح، وزیر اعظم عادل عبدالمہدی اور ممکنہ طور پر سابق وزیر اعظم نوری المالکی سے بھی ملیں گے، جو بغداد میں تہران کے اتحادی اہم ترین شیعہ سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ امکان بھی ہے کہ حسن روحانی عراق میں ایرانی حمایت یافتہ نیم فوجی عسکری تنظیم پی ایم یو کے کمانڈر ہادی الامیری اور قومی تحریک دانش کے سربراہ عمار الحکیم سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ روحانی کے اس دورے سے قبل ایران اور عراق کے مابین حالیہ مہینوں میں کئی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔

امریکا سے براہ راست موازنہ

صدر حسن روحانی کے اس دورے کی تہران کے لیے اہمیت کیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تہران سے بغداد کے لیے روانہ ہوتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ ایران اور عراق کے باہمی تعلقات اتنے خاص ہیں، کہ ان کا بغداد کے امریکا جیسے کسی ’جارحیت پسند ملک‘ کے ساتھ روابط سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ساتھ ہی حسن روحانی نے ایک بار پھر یہ پیشکش بھی کی کہ اگر عراق چاہے، تو ایران اس کی ہر شعبے میں مدد کے لیے تیار ہے۔

کلیدی تجارتی ساتھی

ایران کے لیے عراق کی اقتصادی اہمیت کتنی ہے، دونوں ممالک کے مابین قریبی تجارتی روابط اس کا ایک منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بیرونی تجارت میں چین کے بعد عراق ایران کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ملک ہے۔ دونوں ہمسایہ ریاستوں کے مابین تجارت کا سالانہ حجم 12 بلین امریکی ڈالر یا 10.7 بلین یورو کے برابر بنتا ہے۔ عراق اپنے لیے ایران سے زیادہ تر قدرتی گیس اور بجلی درآمد کرتا ہے۔

م م / ک م / چیز ونٹر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں