1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی جوہری مذاکرات میں تعطل تشویش ناک، آئی اے ای اے

20 جولائی 2021

جو بائیڈن انتظامیہ نے ایران جوہری معاہدے میں واپسی کا عندیہ دیا تھا لیکن اس حوالے سے ہونے والی بات چیت کی طوالت سے امریکا کے علاوہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی بھی بے چین دکھائی دے رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3wiR6
IAEA chief Rafael Grossi
رفائیل گروسیتصویر: Dean Calma/IAEA

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رفائیل گروسی کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے کی بحالی کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات میں تعطل نے اس بین الاقوامی ادارے کو ایک ”غیر اطمینان بخش حالت" میں ڈال دیا ہے۔

برازیل کے سرکاری دورے کے دوران ریو ڈی جنیرو میں پیر کے روز نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے گروسی کا کہنا تھا،”ہمارے اب بھی بہت سارے سوالات ہیں جن کی ہم ایران سے وضاحت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑ رہا ہے تاوقت کہ نئی ایرانی ٹیم اپنی ذمہ داریاں سنبھال لے۔"

اس سے قبل ہفتے کے روز ایک ایرانی عہدیدار نے کہا تھا کہ اگست میں نئی حکومت کے ذمہ داریاں سنبھالنے تک ویانا میں تعطل کا شکار جوہری مذاکرات دوبارہ شروع نہیں ہوں گے۔ خیال رہے کہ ایران میں گذشتہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں سخت گیر قدامت پسند رہنما ابراہیم رئیسی نے کامیابی حاصل کی ہے۔

آئی اے ای اے کے سربراہ گروسی نے کہا کہ ایران کے اس اعلان نے کہ مذاکرات اسی وقت بحال ہوں گے جب رئیسی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے، ہمیں کافی غیر اطمینان بخش حالت میں ڈال دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا،”میں صرف اپنے ادارے کے بارے میں بات کررہا ہوں۔ میں دوسروں کے بارے میں نہیں جانتا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انہیں انتظار کرنے کے بجائے بات چیت کرنی چاہیے۔"

Österreich Wien |  Atom-Konferenz
ویانا میں جاری مذاکرات کا چھٹا دور 20جون کو ختم ہوا تھاتصویر: Askin Kiyagan/AA/picture alliance

خیال رہے کہ ایران سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے گذشتہ اپریل سے ویانا میں امریکا کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کررہا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن  2018میں اس معاہدے سے امریکا کو یک طرفہ طورپر الگ کرلیا تھا۔

اس معاہدے کے تحت ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے اس کے خلاف عائد پابندیوں کو نرم کیا جانا تھا تاہم ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکا کو علیحدہ کرتے ہوئے تہران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کردی تھیں۔ ٹرمپ کے جانشین جو بائیڈن نے اس معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کا اشارہ دیا تھا لیکن ان کی انتظامیہ بھی اب ان مذاکرات کی طوالت کی وجہ سے بے چین دکھائی دے رہی ہے-

جوہری معاہدے پر بات چیت قومی مفاد میں ہو، نو منتخب ایرانی صدر

یورینیم کی افزودگی کے لیے ایران پر نکتہ چینی

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس حوالے سے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہم بات چیت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور جوہری معاہدے پر تعمیری انداز میں مذاکرات کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔"  ان کا مزید کہنا تھا،”ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر ایک ایسا مستقل اور قابل تصدیق طریقہ کار وضع کریں کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کرسکے۔ اسی کے ساتھ ہم اس بار ے میں بھی بالکل واضح ہیں کہ یہ پیش کش ہمیشہ کے لیے دستیاب نہیں ہوگی۔“

 ہفتے کے روز ایرانی مذاکرات کار عباس عراقچی نے کہا تھا کہ اس وقت ایران ایک عبوری دور سے گزررہا ہے کیونکہ اقتدار کی جمہوری منتقلی کا عمل جاری ہے اور ویانا مذاکرات شروع ہونے کے لیے نئی ایرانی انتظامیہ کا انتظار کیا جانا چاہیے۔

Iran Urananreicherungsanlage in Natanz
نطنزجوہری پلانٹتصویر: AEOI/ZUMA Wire/imago images

ویانا میں جاری مذاکرات کا چھٹا دور 20جون کو ختم ہوا تھا۔ یہ بات چیت یورپی یونین کے تعاون سے ہورہی ہے۔ جو برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس کی طرح ابھی تک اس معاہدے کا حصہ ہیں۔

گوکہ ایران کے رخصت پزیر صدر حسن روحانی بارہا وعدہ کرچکے ہیں کہ وہ اپنی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے ہی ایران پر عائد امریکی پابندیوں کو ختم کروائیں گے لیکن نئے اعلانات سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دور صدارت میں یہ مذاکرات مکمل نہیں ہوسکیں گے۔

نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی پانچ اگست کو اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔’جوہری جنگ جیتی نہیں جاسکتی اور یہ کبھی نہیں ہونی چاہئے‘:بائیڈن اور پوٹن کا اعتراف

یورینیم افزودہ کرنے کے ایرانی اعلان پر اقوام متحدہ کا اظہار تشویش

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے سن 2015میں کیے جانے والے اصل جوہری معاہدے اور پھر اسے بحال کرنے کے لیے ہونے والے مذاکرات دونوں کی اجازت دے دی تھی۔

ج ا/  ص ز  (اے ایف پی، روئٹرز)